کب سے ہیں ہم حضور ﷺ، پریشاں قدم قدم- کشکول آرزو (2002)
کب سے ہیں ہم حضورؐ پریشاں قدم قدم
اُلجھے ہوئے تارِ گریباں قدم قدم
آنکھوں سے چھین لے یہ مناظر کوئی حضورؐ
بکھرا ہوا ہے خونِ رگِ جاں قدم قدم
کب سے پڑی ہے راہ گزر میں مرے رسولؐ
زنجیر بن کے گردشِ دوراں قدم قدم
اپنے بدن کی زندہ اکائی کا کیا کریں
جب ہے محیط شامِ غریباں قدم قدم
آمد ہے کس رسولِ معظمؐ کی آج شب
آفاق پر دھنگ ہے فروزاں قدم قدم
آہستہ چل یہ شہرِ نبیؐ ہے مرے رفیق!
آئینہ بن گئے ہیں دل و جاں قدم قدم
مہکا رہا ہے آج بھی شب بھر بفیضِ نعت
نوکِ قلم پہ حسنِ گلستاں قدم قدم
ابرِ کرم حضورؐ مرا ہاتھ تھام لے
مشکل ہو آج بھی مری آساں قدم قدم
خیرات مانگتی ہے متاعِ غرور کی
یہ بے جواز عمرِ پریشاں قدم قدم
شب بھر چراغ بنتے رہے اشک اس لئے
دامن کشاں ہے صبحِ درخشاں قدم قدم
میری شفق نے اسمِ گرامی لیا ریاضؔ
ہونے لگا ہے گھر میں چراغاں قدم قدم