کیف میں ڈوبے ہوئے شام و سحر اچھے لگے- کشکول آرزو (2002)
کیف میں ڈوبے ہوئے شام و سحر اچھے لگے
شہرِ طیبہ کے مجھے دیوار و در اچھے لگے
ہر نفس میں خوشبوئے گردِ سفر کا ذائقہ
راستے میں جو پڑے وہ سب نگر اچے لگے
ہر قدم جیسے دھنک پر، ہر گھڑی جیسے گلاب
وادی عشقِ پیمبرؐ کے شجر اچھے لگے
جب طوافِ روضہ اطہر سے لوٹ آئی نظر
جسم پر اپنے شکستہ بال و پر اچھے لگے
لب بہ لب صلِ علیٰ کے سرمدی نغموں کی گونج
شاخِ ایمان پر درودوں کے ثمر اچھے لگے
نور میں لپٹی ہوئی ان جالیوں کے سامنے
چشمِ تر میں جھلملاتے سے گہرا اچھے لگے
دمانِ رحمت مسلسل ان پہ تھا سایہ فگن
اُنؐ کی چوکھٹ پر پڑے سب بے ہنر اچھے لگے
جگمگاتی روشنی دیوارِ جاں پر تھی محیط
اپنی سوچں کے یہی مجھ کو کھنڈر اچھے لگے
کم سے کم بارِ تکبر ان کے شانوں پر نہ تھا
اُس گلی میں اس آشفتہ سر اچھے لگے
وہ خنک سی چاندنی، مہکے ہوئے منظر تمام
وہ گلی کوچے، دریچے عمر بھر اچھے لگے
کاش ہوتا میں بھی پتھر روزنِ دیوار کا
گنبدِ خضرا کے سائے میں وہ گھر اچھے لگے
تشنہ کامی کا مداوا جن کا منصب ہے ریاضؔ
وہ درِ سرکارؐ کے دریوزہ گر اچھے لگے۔