کروں گا عرض یہ، پوچھیں گے جب اپنے سوالی سے- کشکول آرزو (2002)
کروں گا عرض یہ، پوچھیں گے جب اپنے سوالی سے
لپٹ کر جان دے دوں آپؐ کے روضے کی جالی سے
حریمِ نعت میں اشکوں کی مالائیں سجا کر مَیں
دلوں کو آنچ دوں گا عشق کی، سوزِ بلالیؓ سے
انہیں مشکور فرما کر بھرم رکھ لیجئے میرا
چنی ہیں چند کلیاں میں نے جو لفظوں کی ڈالی سے
برہنہ سر کھڑا ہوں کربلائے عَصْر میں آقاؐ
مجھے نعلین کی اُترن ملے دربارِ عالی سے
حضورؐ! ابرِ کرم کو حکم ہو کھل کر برسنے کا
زمینِ جان و دل بنجر پڑی ہے خشک سالی سے
وہ جن لوگوں کے سر پر تاج ہے خاکِ کفِ پا کا
وہی مشروط ہیں توقیرِ آدم کی بحالی سے
ہر اک لمحے کے سینے میں رہے اسمِ نبیؐ روشن
مکمل ہو تشخص میرا بھی طیبہ کے والیؐ سے
شبِ تنہائی کے لمحوں میں اکثر یاد آتے ہیں
مدینے کے گلی کوچوں کے وہ بچے مثالی سے
پرکھتے ہو مرے جذبات کو اپنی کسوٹی پر
یہ کندن بن کے نکلے ہیں محبت کی کٹھالی سے
درِ اقدس سے رکھنا رابطہ ہر آن تم، ورنہ
منافق ساعتیں پیکر تراشیں گی خیالی سے
مَیں کس شدت سے اُنؐ کی راہ تکتا ہوں دمِ آخر
وہ اندازہ تو کر لیں گے مری آنکھوں کی لالی سے
دمِ رخصت مبارک باد دو اس خوش نصیبی پر
چھلکتے ہیں حروفِ یا نبیؐ ہونٹوں کی پیالی سے
در و دیوار بھی ذکرِ گرامی سے مہکتے ہیں
ریاضؔ اب اور کیا مانگوں میں اس گلشن کے مالی سے