نارسائی کا موسمِ بے اماں- کشکول آرزو (2002)

عجیب دن ہیں
عجیب راتیں
عجیب رُت ہے
نہ روشنی کی طلب بڑھی ہے
نہ تیرگی ہی سے خوف آئے
نہ دل کے آنگن کے طاقچوں میں چراغ روشن
اداسیوں کا مہیب جنگل
مہیب جنگل میں ایک شاعر
افق پہ طیبہ سے اٹھنے والی کرم کی کالی
                            گھٹاؤں کا منتظر ہے
عجیب موسم ہے یا محمدؐ!
محیط شب پر
محیط دن پر
نہ کشورِ جاں کی رہگذر پر
سحاب امڈیں، گلاب مہکیں
ہوا کے آنچل میں ان دنوں بھی
نہ پھول کوئی نہ خار کوئی
عجیب دن ہیں
عجیب راتیں
عجیب رُت ہے
حضورؐ! ابرِ کرم کے چھینٹوں کی آرزو ہے
ہوائے بطحا کے نقشِ پا کی غلام زادوں کو جستجو ہے