رزقِ بقا- کشکول آرزو (2002)

غریبِ شہر کی اوقات کیا مگر سائیں
گدازِ عشق سے لبریز ہے مرا کشکول
جوارِ گنبدِ خضرا ہے سلطنت میری
نیاز و عجز کی ٹھنڈی ہوا میں رہتا ہوں
خدا کا شکر ہے ہوں حلقۂ غلامی میں
فرشتے میری بلندی پہ رشک کرتے ہیں
ثنائے مرسلِ آخر مرا مقدر ہے
غبارِ شہرِ پیمبر ﷺ  کی سر پہ چادر ہے
عجیب کیف کا عالم ہے روز و شب پہ محیط
مَیں چوم لیتا ہوں ہر زائرِ حرم کی جبیں

ثنا کے پھول سجاتا ہے جو دریچوں میں
اسے ریاضؔ بڑا احترام دیتا ہے
قدوم ایسے سخنور کے چوم لیتا ہے
اُنہیؐ کے ذکر سے ساری فضا معطر ہے
نقوش اُنؐ کے صداقت کا آئینہ خانہ
اُنہیؐ کا نام مرا حوصلہ بڑھاتا ہے
پیاس تشنہ زمینوں کی بھی بجھاتا ہے
درِ حضورؐ ہی سوچوں کا ایک مرکز ہے
درِ حضورؐ سے رعنائیوں کے جھرمٹ میں
شعور و آگہی کا نور لے رہا ہے قلم

یہاں جمال رُخِ زندگی کو ملتا ہے
ازل سے رزقِ بقا روشنی کو ملتا ہے