کلاؤڈز آف ڈارکنس- کشکول آرزو (2002)
کھڑی ہے امّتِ مرحوم آج طائف میں
قدم قدم پہ طلسمات کی ہے طغیانی
نفس نفس ہے تشدّد کی آندھیوں کا ہجوم
حضورؐ قریۂ جاں کے چراغ سب گل ہیں
کسی بھی گھر میں دیا، یانبیؐ نہیں روشن
سپاہِ شب نے سحر کو بھی روک رکھا ہے
شبِ سیہ ہی مقدر ہے ہم غلاموں کا؟
نڈھال، خوف زدہ قافلوں کی صورت میں
رواں دواں ہیں قبیلے کے نوجواں آقاؐ
ہمارا جرمِ ضعیفی ہمارا قاتل ہے
غبارِ دیدۂ پُر نم میں کھو گئے منظر
حضورؐ آج کرم کی شدید بارش ہو
حصار کھینچ دیا ہر طرف سے ہر غم نے
عذاب نامے مقدر میں لکھ لئے ہم نے
نگار خانۂ قدرت کے ہر گلستاں میں
حضورؐ! موسمِ زنداں کا حکم چلتا ہے
برہنہ شاخ نمودِ سحر کو ترسے ہے
ہوا سے راکھ مسلسل دکھوں کی برسے ہے
حضورؐ ابرِ کرم کی تلاش میں امّت
بھٹک رہی ہے فرنگی کے کارخانے میں
لٹک رہی ہے ہوس کی صلیب پر کب سے
حدودِ وادیٔ حرص و ہوا میں رہتے ہیں
منافقت کی ردائیں ہیں پیرہن اپنا
گلی گلی میں کبھی آینوں کی بارش ہو
رہِ شعور جہالت کی گرد میں گم ہے
چڑیل رات نحوست کے اژدہے لے کر
دیارِ صبح، وفا سے خراج لیتی ہے
شبیہہِ حرفِ غلط کا جواز دیتی ہے
چمن میں گھور اندھیروں کی یہ بھی کھیتی ہے
برہنہ شاخ سنے نوحۂ شبِ ماتم
حضورؐ تشنہ لبوں پر گھٹا برس جائے
حصارِ شب سے بھی آخر کبھی رہائی ہے
غلام گردشِ لیل و نہار میں اب کے
یہ عہد ہم نے کیا ہے اداس نسلوں سے
حضورؐ آپ کے در سے چراغ لائیں گے
اندھیری شب میں نئے راستے بنائیں گے