روسیہ ہو جسے مال و زر چاہیے- کشکول آرزو (2002)
روسیہ ہو جسے مال و زر چاہیے
تاجدارِ امم کی نظر چاہیے
سر سلامت رہے گا کڑی دھوپ میں
سر پہ دامانِ خیر البشرؐ چاہیے
راستے میرے دیکھے ہوئے ہیں سبھی
یانبیؐ مجھ کو اذنِ سفر چاہیے
در بدر کب تلک مارا مارا پھروں
شہرِ سرکار میں ایک گھر چاہیے
مَیں درودوں کے گجرے بناتا رہوں
یاخدا! مجھ کو ایسا ہنر چاہیے
ذکرِ سلطانِ کون و مکاں کے لئے
دردِ دل، سوزِ جاں، چشمِ تر چاہیے
مَیں بھی لکھنے لگا ہوں ثنائے نبیؐ
آسمانوں کی مجھ کو خبر چاہیے
سر کٹانے کی لذت بڑی چیز ہے
عشق کی کربلا عمر بھر چاہیے
اب ریاضؔ آپؐ کا مضطرب ہے بہت
اب شبِ درد و غم کی سحر چاہیے