روشنی بجھ گئی، چاندنی لٹ گئی المدد یا خدا، الکرم یا نبی ﷺ- کشکول آرزو (2002)
روشنی بجھ گئی چاندنی لٹ گئی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
مانگ ارضِ دعا کی اجڑنے لگی، المدد یاخدا، الممد یانبیؐ
ظلم کی رات ہے غم کی برسات ہے، کیا کہوں ہر گھڑی نذر آفات
ہے
روشنی پھر چراغوں کی مدھم ہوئی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
زندگی جیسے مجہول لمحات ہوں، جیسے سانسیں بھی صحرا کے ذرات
ہوں
جیسے مایوسیوں کی گھٹا ہو کھڑی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
یہ یقیں ہے سخن پر شباب آئے گا، میرے نالوں کا آخر جواب
آئے گا
رنگ لائے گی فریاد کی شاعری، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
بخت کی یاوری کے بھی دن آئیں گے، ہم سے عاصی بھی احمدنگر
جائیں گے
کام آئے گی اشکوں کی نوحہ گری، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
امتِ خستہ جاں پر ہو پھر سے کرم، جس کے چہرے پہ محرومیاں
ہیں رقم
جس کے دامن میں ہے چشمِ تر کی نمی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
ہر ہوس اپنے خوابوں کی تعبیر ہے، سونے چاندی کی پیروں میں
زنجیر ہے
مصلحت حرفِ حق کا مقدر ہوئی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
شہرِ شب میں اجالے تلاشیں کہاں، سانس لینے میں قدغن لگی
ہے یہاں
حلقۂ جبر میں ہے کوئی ہر گھڑی، المدد یاخدا، الکرم یانبی
حیرتوں میں ہے گم سوچ کا کارواںہر طرف شہرِ ابہام کا ہے
دھواں
ذہنِ انساں سے مٹنے لگی ہر خوشی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
دین و ایماںسے بھی، نطقِ قرآںسے بھی سرمدی ساعتوںکے شبستاںسے
بھی
کچے دھادے سے کچی ہے وابستگی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
بے یقینی کے شام و سحر روز و شب، بے نوائی کی ہے داستاں
میری سب
بھیگے موسم میں ہے ریت کا آدمی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
رات بھر اپنی آنکھوں میں ڈوبا رہا، روزِ روشن میں زخموں
کو گنتا رہا
دل گرفتہ ریاضِؔ حزیں آج بھی، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
یہ ریاضؔ اپنے اندر کی بنجر زمیں کیا دکھائے کہ اب پھول
کھِلتے نہیں
اس کی شام و سحر کھیتیاں ہوں ہری، المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ