امواجِ سرمدی میں سفینہ بھی آئے گا- کشکول آرزو (2002)

امواجِ سرمدی میں سفینہ بھی آئے گا
میلادِ مصطفیٰ کا مہینہ بھی آئے گا

تھک کر نہ بیٹھ جائے کہیں طائرِ خیال
اڑتا رہے کہ شہرِ مدینہ بھی آئے گا

یادِ نبیؐ کے پھول کھلانے سے ہمسفر!
ہجرِ رسولِ پاکؐ میں جینا بھی آئے گا

اشکوں میں عکس گنبد خضرا سجا کے دیکھ
انگشتری میں دل کی نگینہ بھی آئے گا

حبِ نبیؐ کی اوڑھ لے شاداب چاندنی
آسودگی کا گھر میں خزینہ بھی آئے گا

قرآں کی آیتوں سے بنا مصحفِ یقیں
دیدارِ مصطفیٰؐ کا قرینہ بھی آئے گا

مہکیں گے پھول مدحتِ سرکارؐ کے مگر
شب بھر ندامتوں کا پسینہ بھی آئے گا

شہرِ خنک کی سَمت چلے کارواں ریاضؔ
ہر اک قدم پہ پھول سا زینہ بھی آئے گا