اس سے غرض نہیں کہ مرا آشیاں رہے- کشکول آرزو (2002)

اس سے غرض نہیں کہ مرا آشیاں رہے
یہ بھی نہیں چمن میں مری داستاں رہے
اتنی سی التجا ہے مگر ربِ ذوالجلال
اقلیمِ نعت میں مرا نام و نشاں رہے