زمیں پر عرصۂ شب کو خدایا! مختصر کر دے- آبروئے ما (2014)
تہجد کے ہر اک لمحے کو تابندہ سحر کر دے
شعورِ بندگی دے کر اِسے میرا ہنر کر دے
قلم کے دونوں ہاتھوں میں کٹورے آبِ زم زم کے
مجھے بھی یا خدا! تو شاعرِ خیرالبشرؐ کر دے
ترے محبوبؐ کے شہرِ مصَّور کا مسافر ہوں
حیاتِ چند روزہ کو مدینے کا سفر کر دے
مقرر میری سانسوں کو تُو کر مدحت نگاری پر
مری شاخِ تمنا کو خدایا! باثمر کر دے
زرِ حُبِّ محمدؐ کے خرانے کر عطا لاکھوں
دیارِ دیدہ و دل کا مجھے بھی تاجور کر دے
غبارِ شہرِ طیبہ میں رہیں آنکھیں قیامت تک
مرے اشکوں کو یا رب! سجدہ ریزی کے گہر کر دے
چھلک پڑتی ہے اکثر آخرِ شب یادِ طیبہ میں
حوالے آبِ رحمت کے مری یہ چشمِ تر کر دے
کبھی تاریک جنگل میں بھی سورج کی کرن اترے
زمیں پر عرصۂ شب کو خدایا! مختصر کر دے
گِھرے رہتے ہیں افکارِ پریشاں میں ترے بندے
خلافِ عدل ہر اک فیصلے کو بے اثر کر دے
حصارِ نرگسیّت میں ہے بینائی کا سرمایہ
تو اپنے فضل و رحمت سے مجھے بھی دیدہ ور کر دے
سناتی ہی رہے شام و سحر سرکارؐ کو نعتیں
ہوائے شہرِ مدحت کو کسی کا نامہ بر کر دے
جہانِ رنگ و بو میں تُو بفیضِ نعتِ پیغمبرؐ
ریاضِؔ بے نوا کی گفتگو کو معتبر کر دے