تخلیق کار خود ہے طلب گارِ مصطفیٰؐ- آبروئے ما (2014)
تخلیق کار خود ہے طلب گارِ مصطفیٰؐ
جن و بشر تمام خریدارِ مصطفیٰؐ
یارب! کبھی بھی گرمیٔ بازار ہو نہ کم
آباد حشر تک رہے بازارِ مصطفیٰؐ
حرفِ غلط ہے فلسفۂ مکتبِ جدید
روشن چراغِ شام ہیں اقدارِ مصطفیٰؐ
پہنچا نہ اُنؐ کی گرد کو نور و بشر کوئی
ہر کہکشاں ہے شاہدِ رفتارِ مصطفیٰؐ
ہے ماورائے رنگ و زباں آپؐ کا خطاب
روشن ہے شامِ کرب میں مینارِ مصطفیٰؐ
ہیں اُنؐ کے در پہ کاسہ بکف مہر و ماہتاب
اک روشنی ازل سے ہے کردارِ مصطفیٰؐ
ہر چیز سائبانِ کرم میں ہے شادماں
ہر چیز پہ ہے سایۂ دیوارِ مصطفیٰؐ
اتری جو آسمان سے اُس کا نہیں جواب
نورِ خدا ہے خلعت و دستارِ مصطفیٰؐ
میں جاگتا ہوں خواب کے عالم میں یاخدا!
دیدارِ مصطفیٰؐ کبھی دیدارِ مصطفیٰؐ
طرزِ عمل حضورؐ کا جمہوریت کی روح
بنیادِ علمِ خیر ہیں افکارِ مصطفیٰؐ
داعی ہیں آپؐ عدل کے اعلیٰ نظام کے
خوشبو! تُو چوم لے لبِ اظہارِ مصطفیٰؐ
جچتا نہیں نظر میں کسی بادشہ کا تاج
کیا خوب کیا حسین ہے دستارِ مصطفیٰؐ
یہ تیرگی ہمارے ہے ذہنوں کی اختراع
ہر چیز پر محیط ہیں انوارِ مصطفیٰؐ
ارض و سما کی وسعیتں اس میں ہیں جلوہ گر
روشن ضمیر دیدۂ بیدارِ مصطفیٰؐ
خوشبو رہے گی رقص کے عالم میں تا ابد
دلکش ہے، دلنواز ہے گلزارِ مصطفیٰؐ