حرفِ مدحت میں جلے امشب گلِ تر کے چراغ- آبروئے ما (2014)
حرفِ مدحت میں جلے امشب گلِ تر کے چراغ
کتنے دلکش ہیں مری شامِ منّور کے چراغ
ایک اُمّی نے اتارے عِلْم کے سورج ہزار
آج بھی روشن ہیں انسانوں کے اندر کے چراغ
یہ ثنائے سیّدِ ساداتؐ کا فیضان ہے
میری کٹیا میں ملیں گے عُود و عنبر کے چراغ
آؤ دکھلاؤں تمہیں غارِ حرا کی تابشیں
تم نے دیکھے ہیں کبھی دنیا میں پتھر کے چراغ
آپؐ کے نقشِ قدم کو حشر تک چوما کریں
آسماں کی وسعتوں میں ماہ و اختر کے چراغ
میر و سلطاں کی یہ کوشش ہے کہ ان کو چھین لیں
قیمتی کتنے ہیں آقاؐ کے گداگر کے چراغ
سرخ آندھی کی کروڑوں سازشوں کے باوجود
جل رہے ہیں ہر طرف میرے پیمبرؐ کے چراغ
اک فقیرِ راہ کا روشن دیا ہے راہ میں
دفن ہیں مٹی میں دارا و سکندر کے چراغ
بھیڑئیے ہیں ارضِ پاکستان پر ٹوٹے ہوئے
تا ابد روشن رہیں اس کے مقّدر کے چراغ
قریۂ شر میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ابھی
دیدۂ تر میں جلیں محراب و منبر کے چراغ
یہ تو دن ہی سیّدِ کون و مکاںؐ کے نام ہے
حشر میں یارب، جلیں انؐ کے سخنور کے چراغ
صرف آسودہ دنوں کی آرزو کی ہے ریاضؔ
میرے دامانِ طلب میں ہیں ابوذرؓ کے چراغ