دل وجاں کے افق پر حرفِ مدحت روشنی لکھّے- آبروئے ما (2014)
دل و جاں کے افق پر حرفِ مدحت روشنی لکھّے
مدینے کو قلم، خُلدِ بریں کی دلکشی لکھّے
صبا کے ہاتھ پر رکھ دوں گا شامِ ہجر کے آنسو
مدینے کی تڑپ میرے لبوں پر تشنگی لکھّے
مری اکھڑی ہوئی سانسیں درودِ پاک پڑھتی ہیں
حیاتِ مختصر میری، سلامِ آخری لکھّے
کبھی خوشبو کتابِ آرزو کے سرورق پر بھی
مدینہ، پھول، جگنو، تتلیاں اور چاندنی لکھّے
اسے معلوم ہے شاعر کا سب کچھ ہے مدینے میں
قلم کیسے مدینے سے ہماری واپسی لکھّے
کمالِ فن کی دستاویز صدیوں سے ادھوری ہے
اجازت آپؐ سے لے کر ہوا بھی آگہی لکھّے
تمنا ہے کہ دل کی رقص کرتی ایک اک دھڑکن
مرے مکتب کی تختی پر ثنا انؐ کی ابھی لکھّے
ازل سے حکم یہ لکھّا گیا ہے دستِ قدرت سے
قصیدہ آپؐ کا ارض و سما کی نغمگی لکھّے
جہاں طیبہ کی خوشبو وجد کے عالم میں رہتی ہے
مری بستی کا ہر شاعر انہیؐ کی شاعری لکھّے
نبیؐ کے جاں نثاروں کو ملا ہے امن کا پرچم
ہوائے کفر دیواروں پہ کب تک سر کشی لکھّے
رہائی زر کی زنجیروں سے دنیا کو ملے، آقاؐ
نجاتِ اخروی کا عہدنامہ آدمی لکھّے
مواجھے میں سنہری جالیوں کے سامنے جھک کر
درودِ سید کونینؐ میری خامشی لکھّے
مرا ہر ایک آنسو آج بھی اوراقِ سادہ پر
رسولِ محتشمؐ! سب کشتیاں ہیں کاغذی، لکھّے
ریاضؔ آنگن میں کب سے ہے بچھی بارود کی چادر
چراغِ عافیت کی لَو مسلسل یانبیؐ لکھّے