مرے اندر کا انساں کیف کے عالم میں رہتا ہے- آبروئے ما (2014)
مرے اندر کا انساں کیف کے عالم میں رہتا ہے
گداز و سوز میں ڈوبا ہوا شاعر کا لہجہ ہے
مدینے کی ہوا کلکِ ثنا کو چوم کر گذری
دریچہ صبحِ جاں پر آپؐ کی مدحت کا کھُلتا ہے
بفیضِ نعتِ ختم المرسلیں، ؐ یہ زندگی میری
مدینے میں کرم کی بارشوں کا ایک چھینٹا ہے
مَیں اپنی خوش نصیبی پر بڑا ہی ناز کرتا ہوں
خیالِ سیدِ کونینؐ فکر و فن میں مہکا ہے
فضائے وادیٔ بطحا سے نسبت ہے مجھے حاصل
کبوتر میری سوچوں کا اُسی میں اڑتا رہتا ہے
اِسے میں جنتِ ارضی نہ لکھوّں پھر تو کیا لکھوّں
مدینے کی زمینِ پاک پر آقاؐ کا روضہ ہے
سمجھ کر اُنؐ کا دیوانہ کوئی پتھر مجھے مارے
غلامی کا، سرِ بازار، یہ پہلا تقاضا ہے
مجھے امشب حضوری کا شرف‘ آقاؐ عطا کر دیں
مری آنکھوں کی بے تابی نے رستہ روک رکھّا ہے
قدم اٹھنے سے پہلے لڑ کھڑا جاتے ہیں شاعر کے
یہ کس کافر کو سانسوں کے تسلسل پر بھروسہ ہے
دباؤ اس قدر کاغذ کی کشتی پر ہے بارش کا
کہ میرے ناخدا نے ڈھیر سا پانی نکالا ہے
شفاعت کا علَم اُنؐ کو دیا ہے اُنؐ کے خالق نے
اُنہیؐ کی رحمتوں کا قافلہ محشر میں پھرتا ہے
خدائے آسماں کے آپؐ، محبوبِؐ مکرّم ہیں
خدا کے ساتھ قرآں میں یہی اک نام آیا ہے
مرے احباب دیکھیں گے سرِ محشر بھی حیرت سے
ثنا گوئی کا ہر دن میری بخشش کا وسیلہ ہے
کروڑوں آفتابوں، چاند تاروں میں ضیا بانٹے
صحائف میں فروزاں وہ مرے آقاؐ کا چہرہ ہے
مسلسل رتجگوں کی ایک دنیا دی گئی مجھ کو
ہیں آنکھیں نیند سے بوجھل، مقدر جاگ اٹھا ہے
اُنہیؐ کے نقشِ پا سے امن کی تحریر ہے ابھری
اُنہیؐ کا اسمِ رحمت ذرے ذرے کا وظیفہ ہے
مسلّط ہے ہوائے جبر میرے ہر جزیرے پر
نبیؐ کے نام اشکوں سے عریضہ مَیں نے لکھا ہے
درِ اقدس کو بوسہ دے کے چلتی ہیں ہوائیں بھی
مدینہ ایسی بستی ہے مدینہ ایسا خطہّ ہے
مسائل کی گرفتِ ناروا میں ہیں مری سانسیں
مصائب کا نیا کوہِ گراں سرکارؐ ٹوٹا ہے
بڑی تکلیف سے چھوٹے ممالک سانس لیتے ہیں
یہ میثاقِ اخوت بھی سراسر ایک دھوکہ ہے
نبیؐ جی، کھڑکیاں ہیں بند بستی کے مکانوں کی
یہ کس آسیب کا دیوار و در سے خوف لپٹا ہے
لغت زنجیر پہنے، سر جھکا کر عرض کرتی ہے
مرا ہر لفظ، آقاؐ، آپؐ کی امت کا نوحہ ہے
معافی مجھ کو بھی دے گا خدا میدانِ محشر میں
مرے ہمدم، مرے سر پر، مرے آقاؐ کا سایہ ہے
خس و خاشاکِ طیبہ کا کفن مجھ کو عطا ہوگا
یہی اعزاز دہلیزِ نبیؐ پر مَیں نے مانگا ہے
جہاں والے تو مصروفِ تشدد ہیں سرِ مقتل
ریاضؔ، ابرِ کرم بھی ٹوٹ کر دنیا میں برسا ہے