مَیں کتابِ عشق کا بابِ ثنا ہوں، یانبیؐ- آبروئے ما (2014)
مَیں کتابِ عشق کا بابِ ثنا ہوں، یانبیؐ
آج بھی مانندِ حرفِ التجا ہوں، یانبیؐ
کیا رسائی ہو فراتِ عشق کے زم زم تلک
کربلا سی کربلا سی کربلا ہوں، یانبیؐ
اپنی ہی تفہیم کر پایا نہیں برسوں میں مَیں
خود ہی اپنی ذات میں الجھا ہوا ہوں، یانبیؐ
مَیں مسائل سے چھڑا پایا نہیں دامن ابھی
کن مصائب کے الاؤ میں گرا ہوں، یانبیؐ
ضبط کا دامن مرے ہاتھوں میں آتا ہی نہیں
مَیں درِ اقدس پہ آکر رو پڑا ہوں، یانبیؐ
ارضِ پاکستان کے ہر ایک ذرے کے لئے
مَیں سراپا آج بھی حرفِ دعا ہوں یانبیؐ
میری خوش بختی کا اندازہ کرے گا کیا کوئی
خلدِ طیبہ کی بہاروں میں کھڑا ہوں، یانبیؐ
دو قدم چلنے کی اب ہمت نہیں باقی رہی
سانس کی تکلیف میں بھی مبتلا ہوں، یانبیؐ
لوگ مجھ کو ڈھونڈتے ہیں مصر کے بازار میں
شہرِ طیبہ کی فضاؤں میں چھپا ہوں، یانبیؐ
آج بھی کشکول میں سکّے کرم کے دیجئے
آپؐ کے در کا ہمیشہ سے گدا ہوں، یانبیؐ
لمحہ لمحہ ہے مرا اوجِ ثریا پر قیام
آپؐ کے قدموں سے وابستہ رہا ہوں، یانبیؐ
مَیں لحد میں پھول مدحت کے سجاتا تھا ریاضؔ
حوضِ کوثر پہ بھی مصروفِ ثنا ہوں، یانبیؐ