آرزوؤں کے جھرمٹ میں شام وسحر، ہم مدینے کی خلدِسخن دیکھتے ہیں- آبروئے ما (2014)
آرزوؤں کے جھرمٹ میں شام و سحر، ہم مدینے کی خلدِ زمیں دیکھتے
ہیں
جہاں اُنؐ کے نقشِ قدم جگمگائے، وہ گلیاں جمیل و حسیں دیکھتے ہیں
عطا کی انہیں ہر بلندی خدا نے، کہا جو خدا نے کہا مصطفیٰؐ
نے
اُدھر روشنی وَجدْ میں ہے مسلسل، جدھر بھی کتابِ مبیں دیکھتے ہیں
اُنہیؐ کے نقوشِ قدم سے مدوّن، ہوا ہے نصابِ اخوّت ازل سے
کہ لوحِ جہاں پہ رقم آج بھی سیرتِ سید المرسلیںؐ دیکھتے ہیں
نبی جیؐ کے قدموں کی خیرات ہے یہ، حروفِ منوّر کی سوغات
ہے یہ
ثنائے نبیؐ کی بدولت غزل کو، سخن کا چراغِ یقیں دیکھتے ہیں
درودوں سے مہکی ہوئی ہیں فضائیں، ادب سے جھکی جا رہی ہیں
گھٹائیں
اُسی در پہ اپنا قلم سرنگوں ہے، اُسی در پہ اپنی جبیں دیکھتے ہیں
مدینے کا فیضان جاری رہے گا، عقیدت کا عالم یہ طاری رہے
گا
لحد میں غلامانِ خیرالبشرؐ سب، بہارِ رسولِ امیںؐ دیکھتے ہیں
بھٹکنا ہمارا مقدّر نہیں ہے، مقدّر میں کالا سمندر نہیں
ہے
جہاں اُنؐ کے نقشِ قدم ہیں فروزاں، غلامانِ کمتر وہیں دیکھتے ہیں
نگاہیں جھکی جا رہی ہیں ہماری، کھڑی کب سے ہے ساتھ بادِ
بہاری
نقوشِ مبارک کی جانب پڑے ہیں، شب و روز اعلیٰ تریں دیکھتے ہیں
مؤدب کبوتر اڑے ہیں فضا میں، ادب کے قرینے ہیں دستِ صبا
میں
مدینے کی دلکش فضاؤں میں آکر، خیابانِ دنیا و دیں دیکھتے ہیں
اِدھر دیکھتے ہیں اُدھر دیکھتے ہیں کہ سب فاصلے خود ہی سمٹے
ہوئے ہیں
دیارِ خودی کی فضائے ادب میں، مناظر وہی دلنشیں دیکھتے ہیں
قلم آج بھی پھول چننے لگا ہے، دیارِ سخن خوشبوؤں سے بھرا
ہے
مقدّر کو اوجِ ثریا سے آگے، ہمیشہ ریاضِؔ حزیں دیکھتے ہیں
ثنائے نبیؐ کی بدولت شبِ غم، کہاں رحمتوں کے سمندر رکے ہیں
حروفِ تسّلی، کرم کی گھٹائیں، ریاضؔ اپنی جاں کے قریں دیکھتے ہیں