ادب سے کارواں چلتا رہے بادِ بہاری کا- آبروئے ما (2014)
ادب سے کارواں چلتا رہے بادِ بہاری کا
قرینہ ہو عطا سرکارؐ کی خدمت گذاری کا
ورق پر خوشبوئیں رقصِ مسلسل میں رہیں، آقاؐ
قلم کی شاخ پر مہکے گلِ تر جاں نثاری کا
سخن کے سر پہ توصیفِ نبیؐ کا تاج رکھتے ہیں
کریں چارہ چمن زارِ غزل کی استواری کا
نبی جیؐ، آپؐ کی الفت کا پیتا ہوں خنک زم زم
مجھے مجرم بھی ٹھہرایا گیا ہے بادہ خواری کا
مرے بے ربط لفظوں کی کوئی قیمت نہیں پڑتی
ہنر آتا نہیں شہرِ قلم میں زرنگاری کا
مجھے بس آپؐ کے ابرِ کرم ہی کی ضرورت ہے
رہیں وہ منتظر سارا برس ساون کی باری کا
ادب سے آپؐ کے نقشِ کفِ پا چوم لیتا ہوں
بڑا ہی محترم ہے مرحلہ اختر شماری کا
مرے بچوں نے سامانِ سفر اب باندھ رکھا ہے
بھرم سرکارؐ رکھ لیجے کسی اپنے بھکاری کا
صبا خاکِ شفا بھی لے کے آئے بند مٹھی میں
مداوا ہو غلامِ بے نوا کی بے قراری کا
کریں چارہ مری اکھڑی ہوئی سانسوں کا بھی آقاؐ
کوئی جھونکا لپٹ جائے ہوائے غمگساری کا
مدینے کی ہوائیں ہمکلامی کا شرف بخشیں
ملے موسم مری کشتِ دعا کو آبیاری کا
شبِ آخر مَیں اکثر نعت لکھتا ہوں پیمبرؐ کی
وظیفہ تا ابد جاری رہے گا اشکباری کا
خدا کے خوف سے عاری رہا ہے ایک اک لمحہ
قیامت تک رہے احساس زندہ شرمساری کا
درِ توبہ پہ اشکوں سے رہیں بھیگی مری آنکھیں
اثر مجھ پر ابھی تک ہے ہوس کی تابکاری کا
صفِ ماتم نئی صبحیں سمیٹیں، یاخدا میرے
در و دیوار سے رخصت ہو موسم آہ و زاری کا
مجھے عرضِ تمنا کا سلیقہ ہی نہیں آتا
مری شوخی کہیں باعث نہ ٹھہرے ناگواری کا
اسے جلدی ہے طیبہ کے گلستاں میں پہنچنے کی
کبھی احوال پوچھا ہے نسیمِ اضطراری کا
مرے جرمِ ضعیفی کی سزا اب ختم ہو جائے
کوئی ردِ عمل افلاس کی ہو ضربِ کاری کا
خدا توفیق دے سازش کی کڑیوں کو سمجھنے کی
کوئی مطلب تو ہوگا دشمنوں کی خاکساری کا
کوئی پھل پھول کب باقی بچا ہے صحنِ گلشن میں
ابھی تک سلسلہ جاری ہے شر کی سنگباری کا
مَیں اپنے عجز کو دستار کہتا ہوں مدینے کی
نیا اسلوب ہے سرکارؐ میری انکساری کا
ریاضؔ اوجِ ثریا پر نہ چمکے تو کہاں چمکے
اسے منصب ملا ہے آپؐ کی مدحت نگاری کا