کھلا رَحلِ ادب پر پھر سرِ شب باب مدحت کا- آبروئے ما (2014)
کُھلا رَحلِ ادب پر پھر سرِ شب باب مدحت کا
مرے آقاؐ میں کب سے منتظر ہوں چشمِ رحمت کا
مرے گھر کے در و دیوار پر ہے وجد کا عالم
ہجومِ آرزو پھیلا ہوا ہے نور و نکہت کا
صبا پیغام لائے حاضری کا شہرِ طیبہ سے
کُھلے بابِ طلب شامِ ادب میری بھی حیرت کا
جہالت کے سمندر میں رہو گے غوطہ زن کب تک
کُھلا ہے امن کا پرچم نبی جیؐ کی شریعت کا
لبوں پر نعت کا مطلع مرے بچوّں نے لکھّا ہے
کرے شکرِ خدا، میری زباں ہر اسکی نعمت کا
کُھلے قعرِ مذلت کے مقفل در، سرِ مقتل
ہمارے ہاتھ سے پرچم گرا جو شان و شوکت کا
ہدف اپنی ہی قبریں کھودنے کا ہے ملا ہم کو
عذابِ سخت ہے ہر روز مرنے کی اذیّت کا
کبھی جرمِ ضعیفی کی تلافی ہو نہیں سکتی
یہی ہے فیصلہ تخلیق کے دن سے مشیّت کا
ہجومِ اہلِ شر کو روکنا بس میں نہیں میرے
لگا ہے، یا خدا میلہ سرِ مکتب جہالت کا
نئے دن کے نئے سورج پہ، آقاؐ، روز گرتا ہے
مرے چاروں طرف پھیلا ہوا موسم قدامت کا
نبی جیؐ، آبِ زم زم عشق کا میرا مقّدر ہو
نہیں بھوکا، ریاضِؔ بے نوا دنیا کی دولت کا