خلدِ طیبہ کے اے موسمِ دلکشا، میری اُجڑی ہوئی کشتِ جاں میں اتر- خلد سخن (2009)
خلدِ طیبہ کے اے موسمِ دلکشا، میری اُجڑی ہوئی کشتِ جاں
میں اُتر
میرے ہونٹوں کی دہلیز پر پھول رکھ، چاند بن کر مرے آشیاں میں اُتر
ہمکلامی ہوائے مدینہ سے ہو، ہمنشینی کبھی طورِ سینا سے ہو
طائرِ فکر صلِّ علیٰ کہہ کے اُڑ، آج بھی حیطہء دلبراں میں اُتر
رتجگوں کا تسلسل مقدّر بنے، میری پہچان نعتِ پیمبرؐ بنے
ہمسفر، ساتھ چل، شامِ مدحت میں ڈھل، تُو بھی گردِ رہِ کارواں میں اُتر
اپنی پلکوں کو تلوے بنا کر تو چل، دیپ حُبِّ نبیؐ کے جلا
کر تُو چل
اے شعورِ غزل، ہے مقامِ ادب، قریہء عظمتِ مرسلاں میں اُتر
آسمانی صحیفوں کے اوراق پڑھ، میرے آقاؐ کی آمد کے عنواں سمجھ
خوشبوئے حرفِ نو کے ہجومِ کرم، اُنؐ کی توصیف کے آسماں میں اُتر
آج کی شب بھی طیبہ کے دیوار و در سے لپٹتا رہے چشمِ تر کا دُھواں
گنبدِ سبز کے عکسِ صد محترم، میرے بے تاب اشکِ رواں میں اُتر
وَصل کی ساعتوں کی تمنا لیے، جی رہا ہے کوئی ہجر کے شہر
میں
اے کرم کی گھٹا، میرے آنگن میں آ، آنسوؤں سے لکھی داستاں میں اُتر
میرے بچوں کے خوابوں کو تعبیر دے، ان کو آسودہ لمحوں کی
تنویر دے
رحمتِ مصطفیٰؐ، رحمتِ مصطفیٰؐ، میرے جلتے ہوئے سائباں میں اُتر
امتِ بے وسیلہ کی محرومیوں کا بیاں کب تلک اے مرے نوحہ گر
ہاتھ میں لے کے عزم و عمل کے عَلَم، تو کبھی شہرِ نطق و بیاں میں اُتر
اپنے بختِ رسا کی بلائیں بھی لے، شہرِ طیبہ کی ٹھنڈی ہوائیں
بھی لے
میری کلکِ ثنا، وَجد میں آج آ، محفلِ نعت کی کہکشاں میں اُتر
دامنِ دل میں کلیاں سجاتے ہوئے، آرزو کے گھروندے بناتے ہوئے
اے خیالِ نقوشِ کف پا سمٹ، لوحِ جذبات کے گلستاں میں اُتر
ہر طرف سنگباری کا منظر کھُلا، سنگدل ساعتوں کا سمندر کھُلا
اے ضمیرِ قلم، استقامت دکھا، تُو غبارِ شبِ امتحاں میں اُتر
آج تُو میری اُنگلی پکڑ لے صبا، سوئے طیبہ چلیں، میرے ہمراہ
آ
میری نعتیں سنا، مرحبا مرحبا، خطّہئِ نور و نکہت فشاں میں اُتر
مَیں ریاضؔ آج بھی سر جھکائے ہوئے، ملتمس ہوں ہوائے درِ
پاک سے
میرے آنگن کے پیڑوں پہ بھی پاؤں رکھ، میری تشنہ لبی کے مکاں میں اُتر