چراغِ دل رہے روشن بدن کی تنگناؤں میں- آبروئے ما (2014)
چراغِ دل رہے روشن بدن کی تنگناؤں میں
حروفِ آرزو کے پھول مہکیں التجاؤں میں
مرے اوراقِ تشنہ پر گرے شبنم تسلسل سے
نصابِ عشق کا ہر لفظ ہو میری دعاؤں میں
مقدّر لے کے آیا ہے مدینے میں تو اے زائر
ادب سے باندھ لے خاکِ شفا اپنی عباؤں میں
پرندے آشیانوں میں غضب کی نیند سے جاگیں
علَم تقسیم ہوں امن و اماں کے فاختاؤں میں
نبیؐ کے چاہنے والوں کے سب آنسو فروزاں ہیں
عجب منظر یہ دیکھا ہے مدینے کی ہواؤں میں
تری آنکھوں کا ہر آنسو بڑا انمول ہیرا ہے
ترا دامن رہے بھیگا مدینے کی فضاؤں میں
حضورؐ اس عہدِ نو میں ہے دھواں شامِ غریباں کا
کنارِ آب جو خیمے جلے ہیں کربلاؤں میں
ابھی دیوار و در میرے مکانوں کے نہیں اٹھے
سمندر کیا چھپے ہیں اس برس کالی گھٹاؤں میں
نبی جیؐ، عافیت کا دیجئے مثردہ غلاموں کو
یہ کیا سرگوشیاں ہونے لگیں نیلی فضاؤں میں
کبوتر سر جھکا کر نعت پڑھتے ہیں پیمبرؐ کی
یہ کیسا کیف کا عالَم ہے طیبہ کی ہواؤں میں
زمانہ کیا کہے گا اس کی پروا ہے کسے قاصد
ریاضؔ بے نوا بانٹے دیے کالی بلاؤں میں