التجا ہے آپؐ کے شاعر کی یا خیر البشرؐ- آبروئے ما (2014)
التجا ہے آپؐ کے شاعر کی یا خیرالبشرؐ
زندگی کے آخری دن ہوں مدینے میں بسر
ابرِ رحمت ہی برستا ہے یہاں شام و سحر
ذرّہ ذرّہ خلدِ طیبہ کا یقینا ہے گہر
آج بھی چشمِ تصّور جانب طیبہ چلے
وادیٔ فکر و نظر میں پھول جائیں گے بکھر
تشنہ ہونٹوں پر ابھی ہے تشنگی باقی حضورؐ
ہو کرم بارِ دگر، بارِ دگر، بارِ دگر
حوصلہ رکھیّں مرے گھر کے مکیں اب کے برس
عرصۂ ہجرِ پیمبرؐ ہے بہت ہی مختصر
سوچ رکھا ہے اگر اذنِ سفر اب کے ملا
نذر کردوں گا درِ اقدس پہ اپنے بال و پر
یہ عطا ہے آپؐ کے لطف و کرم کی، یا نبیؐ
کیا مرے الفاظ، کیا میرا قلم، میرا ہنر
سانس لینے میں ہے دشواری غبارِ شام میں
اے ہوائے خلدِ طیبہ! میرے آنگن میں اتر
گوش بر آواز ہے سارا زمانہ اِس گھڑی
نعتِ ختم المرسلیںؐ پڑھتی رہے بادِ سحر
آج بھی گردِ انا چہروں سے دھل جائے، حضورؐ
ہے غبارِ فتنہ و شر میں مری بھی چشم تر
اے ہوائے ارضِ پاکستان کر پہلے وضو
بن کے تصویرِ ادب پھر شہرِ آقاؐ سے گذر
ہر مدینے کے مسافر کو خنک موسم کا نم
یا خدا! تقسیم کرتا ہی رہے بوڑھا شجر
منتظِر ہے آپؐ کے قاصد کی ہر باندی حضورؐ
باندھ رکھا ہے مرے بچوّں نے سامانِ سفر
دے شعورِ بندگی مجھ سے بھی ناداں شخص کو
گم رہیں عشقِ پیمبرؐ میں مرے قلب و نظر
دے ریاضِؔ خوشنوا کو بھی پذیرائی کی چھَب
یا خدا! کر دے مرے حرفِ ثنا کو معتبر