سرِ اوراقِ مدحت تُو، نوائے خوشنوا بننا- آبروئے ما (2014)
سرِ اوراقِ مدحت تُو نوائے خوشنوا بننا
کتابِ آرزوئے مصطفی کا حاشیہ بننا
بوقتِ حاضری سرکارِ دو عالمؐ کی چوکھٹ پر
بہت اچھا مجھے لگتا ہے حرفِ التجا بننا
مجھے معلوم ہے اُنؐ کی غلامی کا تقاضا ہے
گزرگاہِ مدینہ پر ابد تک نقشِ پا بننا
شبِ اسریٰ کا یہ پیغام ہے تحریر صدیوں سے
سفر کرنا خلاؤں میں، کتابِ ارتقاء بننا
کوئی پہچان کیا مدِ مقابل اس کے آئے گی
ملی ہے زندگی تو تم غلامِ مصطفی بننا
کہاں حسانؓ و بوصیریؒ، کہاں اک بے نوا شاعر
بڑا اعزاز ہے اس دور میں کلکِ رضاؒ بننا
خدا سے مانگتے رہنا تقاضا بندگی کا ہے
مصّلے پر کھڑے ہو کر دبستانِ دعا بننا
قلم کی خوشبوؤں کے ساتھ رہنا ہے قیامت تک
ابد تک میرے لفظوں کو ہے دامانِ صبا بننا
چمن زارِ غزل کی دلکشی بے حد ضروری ہے
مرے شعروں پہ لازم ہے، کلامِ لب کشا بننا
جلے خیموں کے اندر سسکیوں کو چننا پڑتا ہے
ریاضؔ اتنا بھی کب آساں ہے دشتِ کربلا بننا