نوکِ قلم پہ نور کے دھارے اُتار دیں- خلد سخن (2009)
نوکِ قلم پہ نور کے دھارے اُتار دیں
موسم شعورِ نعت کے سارے اُتار دیں
شامِ غبار خوفِ مسلسل میں ہے، حضورؐ
آنگن میں عافیت کے ستارے اُتار دیں
ساحل سے دور موجِ حوادث کا ہوں ہدف
کشتی کے آس پاس کنارے اُتار دیں
بچوں کی چشمِ شوق ہے ویران کس قدر
جگنو، دھنک، گلاب، غبارے اُتار دیں
کر کے غنی نوازشِ پیہم سے آج بھی
آقاؐ تمام بوجھ ہمارے اُتار دیں
دستِ صبا میں خاکِ شفائے قدوم ہے
مرہم بدن سے درد کے مارے اُتار دیں
اشکوں کے پھول اتنے لُٹائیں شبِ فراق
عمرِ گریز پا کے خسارے اُتار دیں
ان ہجرتوں کی کوکھ سے پھوٹے جمالِ صبح
حسن و عمل میں اتنے شرارے اُتار دیں
اہلِ وطن حضورؐ دیں اس خاک کا کفن
بے شک، ہزار، جسم میں آرے اُتار دیں
دہلیز مصطفیٰؐ پہ جبیں رکھ کے ہم ریاضؔ
جھوٹی اَنا کے جھوٹے سہارے اُتار دیں