تمام راستے کھلتے ہیں بند گلیوں میں- خلد سخن (2009)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مَیں اپنی ذات کی تنہا سی جھیل میں گم ہوں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
چاروں طرف پانیوں کی دیواریں
اور اِن میں
ایک بھی کھڑکی نہیں
نہ در کوئی
چھپا ہوا ہوں میں اس گہری جھیل کے اندر
یہ خوف میرے تعاقب میں آج بھی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں اپنے قتل میں خود آپ ہی ملوث ہوں
کہ مَیں نے اپنی انا کا بھرم نہیں رکھا
کہ مَیں نے اپنی اکائی کا بھی نہیں سوچا
بھلے دنوں کی حرارت نہیں رگوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسے سپردِ قضا کر کے مطمئن ہوں کہ مَیں
نئی صدی میں نئے بانکپن سے اُترا ہوں
مگر تمام اثاثے جو تھے بزرگوں کے
جلا کے، راکھ کا تخلیق کر رہا ہوں بدن
مَیں اپنے ظاہر و باطن سے
بے خبر ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مری صدا مرے اندر کی قبر میں کب سے
حساب روزِ ازل سے ہے دے رہی لیکن
ثبوت کوئی نہیں میری بے گناہی کا
قلم ہے دستِ قضا میں مگر مرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ شخص مسندِ انصاف پر جو بیٹھا ہے
نصابِ عدل کی ابجد سے بھی نہیں واقف
تمام راستے کھلتے ہیں بند گلیوں میں
مَیں تیرےؐ در کے سوا
یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کدھر دیکھوں؟