اظہاریہ: ریاض حسین چودھری اپنی نعت اور نعتیہ کتب کے آئینے میں (ڈاکٹر شہزاد احمد)- کائنات محو درود ہے (2017)

جدید اُردو نعت کا جب بھی تذکرہ ہوگا۔ ریاضؔ حسین چودھری کے نام کو بھی اوّلیت حاصل رہے گی۔ موصوف کا شمار عہدِ جدید کے معروف اور قابلِ ذکرنعت نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کا ورق ورق اکیسویں صدی کی جدید نعت کے پس منظر اور پیش منظر کو واضح کر رہا ہے۔ ان کے ہاں تخلیقی توانائیوں میں روایت کا تسلسل بھی کارفرما ہے اور ان کی طاقِ جاں میں شہرِ مدحت کے ابدی و جدید چراغ روشن ہیں۔

ریاضؔ حسین چودھری کی ریاضتِ نعت تحریکِ عشقِ مصطفی کا جدید تر استعارا ہے۔ شاعر موصوف کی نعت صرف ذاتی وارداتِ قلب نہیں، بلکہ اس میں عصری مسائل کا شعور اور آشوبِ ملّت کا احساس بھی نمایاں ہے۔جمالِ صورت اور کمالِ سیرت کے سب انداز جاذبِ نظر ہیں۔

نعت گوئی کی دولتِ بیدار ریاض چودھری کو وافر انداز میں میسّر ہے۔ اس پر وہ جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔ یہ دولتِ بیدار، ریاضت سے نہیں، بلکہ خوش نودیٔ خدا اور رضائے مصطفی سے نصیب ہوتی ہے۔

موصوف کا دل نشیں اسلوب وجدانی و عرفانی کیفیات سے ہم رشتہ ہے۔ ان کے ہاں موضوع، خیال اور اسلوب کی رنگارنگی متاثر کن ہے۔ انھیں موضوعِ نعت کو قومی و بین الاقوامی طور سے دیکھنے کی مہارت ہے۔ ان کے کلام میں جدید لفظیات اور تازہ تراکیب وجد کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا تخیل اور مشاہدہ جلوۂ صد رنگ سے آشنا ہے۔ شاعرِ موصوف کی نعتیہ شاعری ایک دلِ بیدار اور حاضرباش شاعر کی شاعری ہے جس کی مسلسل ستائش اور ہرگام پر حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔

ریاضؔ حسین چودھری نے جدید اُردو نعت کا پرچم تھاما ہوا ہے۔ اس پرچم کے سائے تلے وہ اپنے جدید افکار اور نوبہ نو اذکار کو ادبِ نعت میں گاہے گاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان جیسے بلند پایہ اور معروف و مقبول نعت نگاروں کی پذیرائی درحقیقت اُردو کے نعتیہ ادب کی خدمت ہے۔

ربِّ کردگار سے یہی التجا ہے کہ وہ ان نفوسِ قدسیہ کو عمرِ خضر سے نوازے تاکہ یہ حضرات ادب ِ نعت کو وقیع انداز سے سیراب کرتے رہیں۔

شہرِ اقبال (سیالکوٹ) سرزمینِ عشق و محبت ہے۔ شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؔ رحمۃ اللہ علیہ کو اسی سرزمین سے نسبت ہے۔ دیارِ اقبالؔ سے تعلق رکھنے والے جدید اُردو نعت کے قابلِ صد احترام شاعر ریاضؔ حسین چودھری بھی 8؍نومبر 1941ء کو سیالکوٹ کے اسی قریۂ عشق و محبت میں پیدا ہوئے۔

آپ کے والدِ گرامی الحاج چوہدری عبدالحمید مرحوم (آف چوہدری فضل دین اینڈ سنز) معروف صنعت کار اور ممتاز تاجر تھے۔

٭ ریاضؔ حسین چودھری مرے کالج میگزین کے دو سال تک مدیر رہے۔
٭ 1963ء میں مرے کالج سے گریجویشن کیا۔
٭ مرے کالج بزمِ اُردو کے صدر بھی رہے۔
٭ دو سال تک لاء کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مجلّے ’’المیزان‘‘ کے اُردو سیکشن کے مدیر رہے۔
٭ حلقۂ اربابِ ذوق سیالکوٹ کے دو مرتبہ سیکریٹری منتخب ہوئے۔
٭ پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے سیکریٹری بھی رہے۔
٭ تحریکِ منہاج القرآن مرکزی سیکریٹریٹ لاہور میں 13 سال تک مختلف عہدوں پر کام کیا۔
٭ پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ لاہور کے دس سال تک مدیرِ اعلیٰ رہے۔
٭ تحریکِ منہاج القرآن کے شعبۂ ادبیات کے صدر کی حیثیت سے 2002ء میں سبک دوش ہوئے۔
٭ ایم اے اور ایل ایل بی کے سند یافتہ ہیں۔
٭ متعدد صدارتی و صوبائی ایوارڈز مسلسل خدماتِ نعت کے گواہ ہیں۔

زرِ معتبر جولائی 1995ء (پہلا مجموعۂ نعت)

’’زرِ معتبر‘‘ جولائی 1995ء میں شائع ہونے والا ریاضؔ حسین چودھری کا پہلا کلامِ نعتیہ ہے۔ پہلا ایڈیشن عمیر پبلشرز لاہور نے شائع کیا تھاجبکہ دوسرا ایڈیشن خزینۂ علم و ادب، الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ 288 صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ نعت مجلّد ہے۔ اہتمام سے طبع شدہ زرِ معتبر 23x36=16 کے سائز میں اشاعت پذیر ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ستمبر 2000ء میں طبع ہوا۔ اس وقت یہی میرے پیشِ نظر ہے۔

اس کا انتساب ’’اِس کائناتِ رنگ وبوُ کے خالق و مالک کے نام، جس نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید اپنے محبوب پر نعتِ مسلسل کی صورت میں نازل فرمایا۔‘‘ زرِ معتبر کی ’’پیشوائی‘‘ کا شرف حفیظ تائبؔ کو حاصل ہے۔ زرِ معتبر کی نعتوں سے کسبِ فیض کرنے والوں میں احمد ندیمؔ قاسمی بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں شاعر کا اپنا مقدمہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ بے مثال نثری شہ پارہ ہے جس کا مطالعہ شرحِ صدر کا باعث ہے۔ جس میں نعت، صاحبِ نعت اور اس کتابِ نعت کے بارے میں جامع، بلیغ اور دل کش گفتگو شامل ہے۔ اس ریاضِؔ نعت کی صرف نظم ہی دل کش نہیں بلکہ نثر بھی دل کے تاروں کو چھیڑتی ہے۔

زرِ معتبر جدید اُردو نعت کی روایت میں ایسا عہد آفریں اضافہ ہے جس کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ جدید اُردو نعت کے اُفق پر ثنائے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی قوسِ قزح سجانے والوں میں ریاض حسین چودھری کا نام اعتبار کا حامل ہے۔ نعت گوئی کے لیے جس ’’زرِ معتبر‘‘ (نعت کی اصل روح) کی فی زمانہ ضرورت ہے موصوف اس زرِ معتبر کا وافر حصہ حاصل کر رہے ہیں۔

اس نعتیہ مجموعہ کلام میں زیادہ تر نعتیں غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہیں جب کہ اس میں نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ غزل پاروں یعنی قطعات میں ذاتی کیفیات کے شواہد عمدگی سے موجود ہیں۔ آزاد اور پابند نظمیں سیرتِ پاک صاحب لولاک ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مضامین کا ا حاطہ کیے ہوئے ہیں۔ نو بہ نو ردیفیں اور نت نئی زمینیں شاعر کی قدرتِ اظہار کی گواہ ہیں۔

بلاشبہ ’’زرِ معتبر‘‘ جدید اُردو نعت کا ایک مستند حوالہ ہے۔ جس میں ریاضِؔ نعت کی ریاضتِ نعت کے اچھے خاصے تجربے شامل ہیں۔ نظم نگاری کی بھی توانا روایت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ نئے دن کا سورج، حصارِ گنبدِ ہجر کی پہلی صدا، کومنٹ منٹ، یکتا و تنہا اور وژن بہترین نظموں کا اضافہ ہیں۔

نعتیہ ادب کے معروف خدمت گزار حفیظ تائبؔ مرحوم نے اپنی تحریر کردہ ’’پیشوائی‘‘ میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ ریاضؔ چودھری کی نعتیہ شاعری کا محاکمہ پیش کیا ہے۔
’’ریاضؔ حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین رسالت کے ساتھ ساتھ، عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے۔ ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی، اُس کا اسلوب اُردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے اور اسے جدّت و شائستگی کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے۔‘‘

معروف افسانہ نگار، ادیب و شاعر احمد ندیمؔ قاسمی نے بھی ’’زرِ معتبر‘‘ کے پسِ ورق کو اپنی زرّیں آرا کے حُسن سے آراستہ کیا ہے:

’’گزشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعرا نے اس صنفِ سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کیے ہیں ان میں ریاضؔ حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔‘‘

ریاضؔ حسین چودھری کی نعت گوئی کے حوالے سے یہ صرف چند ناتمام اشارے ہیں۔ جب تک زرِ معتبر رکھنے والے اس شاعر کے کلام سے آپ ہم رشتہ نہیں ہوں گے، تب تک آپ اپنی مشّامِ جاں کو معطر نہیں کرسکتے۔ زرِ معتبر کے اس ابتدائی خوبصورت اور بامعنی شعر پر اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں۔ اس شعرکو اپنے دل میں جگہ دیجیے ؎

میرے بچوں کو وراثت میں ملے حُبِّ رسول
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے

رزقِ ثنا یکم جون 1999ء (دوسرا مجموعۂ نعت)

’’رزقِ ثنا‘‘ یکم جون 1999ء کا طبع شدہ ہے۔ یہ ریاضؔ حسین چودھری کا دوسرا مجموعہ نعت ہے۔ اس کتاب کی حُسنِ طباعت کا اہتمام خزینۂ علم و ادب، الکریم مارکیٹ اُردو بازار، لاہور نے کیا ہے۔ مجلّد شائع ہونے والا یہ مجموعۂ نعت 176 صفحات پر محیط ہے۔ اسے 23x36=16 کے سائز میں طبع کیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ یافتہ کتاب دوسری بار ستمبر 2000ء میں پھر طبع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن میرے پیش نظر ہے۔

اس کتاب کا انتساب شاعر کی تحریر میں ملاحظہ کیجیے ’’برادرِ مکرم الحاج محمد شفیع کے نام، کہ دمِ آخر بھی جن کے ہونٹوں پر حضور ختمی مرتبت کی شفاعت کی تمنّا حرفِ التجابن کر مچلتی رہی‘‘۔ اس کتاب پر گوہر افشانی کرنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی، ریاضؔ حسین چودھری، حفیظ تائبؔ اور ڈاکٹر خورشیدؔ رضوی شامل ہیں۔
ریاضؔ حسین چودھری کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘ کئی خصوصیات کا حامل ہے۔ اولاً اِسے حکومتِ پاکستان نے 2000ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ ثانیاً حکومتِ پنجاب نے 2000ء میں صوبائی سیرت ایوارڈ دیا۔ جب کہ اسے سیرت اسٹیڈی سینٹر، سیالکوٹ اور تحریکِ منہاج القرآن نے خصوصی ایوارڈز سے نوازا۔

زرِ معتبر کے شاعر نے اپنے لیے رزقِ ثنا کا بھی اہتمام کرلیا ہے۔ رزقِ ثنا کا حُسنِ آغاز ’’حمدِ ربِّ جلیل‘‘ سے ُمستنیر ہے۔ اس میں غزل کی ہیئت میں زیادہ تر کہا گیا نعتیہ کلام شامل ہے جب کہ اس میں پابند نظموں کے علاوہ آزاد نظمیں، حمد ونعت، صلوٰۃ و سلام بدرگاہِ خیرالانام، قطعات اور نعتیہ گیت بھی شامل ہیں۔

ریاضؔ حسینچودھری کی نعت میں وہ تمام فنّی اور معنوی تلازمات ہمیں دکھائی دیتے ہیں، جو روایت سے جدّت کی جانب ارتقا پذیر ہیں۔ عصری نعت کی یہی علامت ہے۔ کلاسیکی نعت شخصی احوال و آثار کا منظرنامہ ہے۔ جدید حسیّت کے ضمن میں ریاضؔ حسین چودھری کی نعت کے تہذیبی پس منظر کا ابلاغ سب سے جُداہے۔ ان کی توانا آواز، تلمیحات و استعارات کا برجستہ استعمال انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔

رزقِ ثنا کی گوہر افشانی کرنے والے پہلے شریک پروفیسر ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی ہیں۔ ان کی صائب فکر نے اُمّت کے اجتماعی احوال و مسائل کا حل نعتِ رسول میں ڈھونڈا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’آج کی نعت جہاں روایت کے مذکورہ بالا اجزا و صفات سے پُر دامن ہے، وہیں اُمت کے اجتماعی احوال و مسائل کی عکاس اور ترجمان بھی ہے یعنی عصرِ حاضر میں نعت ذات اور اجتماعیت دونوں پہلوؤں اور جہتوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔‘‘

فکرِ حفیظ تائبؔ کی گوہر افشانی کے بھرپورانداز کو دیکھیے:

’’جدید اُردو نعت کا کوئی مختصر سے مختصر تذکرہ بھی ریاضؔ حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا بھرپور حوالہ دیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، ان کا شمار عہدِ جدید کے صفِ اوّل کے نعت نگاروں میں ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر خورشید رضوی نے رزقِ ثنا کا خیر مقدم ان الفاظ میں کیا ہے :

’’جن معاصر شعرا نے خاص نعت کے حوالے سے شناخت پیدا کی، ان میں جناب ریاضؔ حسین چودھری کا نام ایک معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ ذوقِ نعت ان کے خمیر میں رچا ہوا ہے‘‘۔
ریاضؔ حسین چودھری صرف قادرالکلام شاعر ہی نہیں، بلکہ ایک ماہر نثّار بھی ہیں۔ ان کی تحریر کی جادو بیانی کا یہ انداز دیکھیے۔ جی تو چاہتا ہے کہ ان کی تحریر کے کئی اقتباس پیش کروں، مگر یہ ٹکڑا ان کی مؤثر تحریر کا حاصل ہے۔

’’دشمنانِ اسلام اپنی تمام تر علمی خیانتوں، تحقیقی لغزشوں اور فکری مغالطوں کے باوجود اس فاقہ کش مسلمان کے جسم سے روحِ محمد کو نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔ نعت اسی روحِ محمد کے جمالیاتی اظہار اور شعری پیکر کا نام ہے۔‘‘

شاعرِ موصوف اپنی کتاب کے اندرونی سرِ ورق سے پہلے اپنی زرِ معتبر کا اظہار رزقِ ثنا کی صورت میں ضرور کرتے ہیں۔ شعرکے معنوی حُسن کو اپنے دل میں جگہ دیجیے جس میں حشر کی نجات موقوف ہے ؎

حشر تک چین سے سو جاؤ فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صلِّ علیٰ کا موسم

تمنّائے حضوری جون 2000ء (تیسرا مجموعۂ نعت)

’’تمنائے حضوری‘‘ یکم ربیع الاوّل 1421ھ مطابق جون 2000ء کی طبع شدہ ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری کا یہ تیسرا مجموعہ نعت ہے جو 150 قطعات پر مشتمل طویل نظم ہے جسے ’’بیسویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام مغل کمپنی، کنٹراسٹ پرنٹرز اینڈ پبلشرز، قذافی مارکیٹ اُردو بازار، لاہور نے کیا ہے۔ 96 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مُجلّد اور 23x36=16 کے سائز میں طبع شدہ ہے۔

تمنّائے حضوری کا انتساب ان لفظوں میں کیا گیا ہے ’’اکیسویں صدی کے نام کہ یہ صدی بھی میرے پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدی ہے‘‘۔ ’لمحاتِ حاضری کی تمنّا لیے ہوئے‘‘ کے عنوان سے ریاضؔ حُسین چودھری کی دل کشا اور معلومات افزا تحریر تمنّائے حضوری و حاضری سے لب ریز ہے۔ تمنّائے حضوری کے بادہ کشوں میں پروفیسر محمد اقبال جاوید اور صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی شریک ہیں۔

ریاضؔ حسین چودھری اس طویل نعتیہ نظم کے ابتدائی قطعات میں ایک حمدیہ مصرعہ کی چھایا میں نعت کی مالا جپ رہے ہیں۔ ہر قطعہ نئے مضمون سے آراستہ ہے۔ روانی اور سلاست اپنے زوروں پر ہے۔ یہ طویل نعتیہ نظم مضامین کے توارد سے کوسوں دور ہے۔ ہر قطعہ کا پہلا اور آخری مصرعہ شاعر کی زودگوئی اور قادرالکلامی کا گواہ ہے۔ اس نعتیہ نظم میں ریاضؔ کی ریاضتِ نعت فکر و فن، شعر و سخن اور علم و ادب کی راہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ قطعات وجدانی کیفیات کے حامل ہیں۔ اس میں شاعر نے اپنی تمنائے حاضری کو تمنّائے حضوری میں سمو دیا ہے۔

تمنّائے حضوری میں ریاض حسین چودھری کی مشکل لمحات میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دستگیری کی التجا اور آمنہ کے لال کے حضور درِ عطا پر پلکوں سے دستک دینے کے اس انداز کو دیکھیے۔

’’بچپن سے لے کر آج تک میرا معمول یہ رہا ہے کہ دشوار، کٹھن اور مشکل لمحات میں اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دستگیری کی التجا کرنے اور مشکل کشائی کی درخواست گزارنے کے بعد آمنہ کے لال حضور ختمیٔ مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر بھی پلکوں سے دستک دینے کا اعزاز حاصل کرتا ہوں، آنکھوں کو بند کرکے ہونٹوں پر درودوں کے گلاب سجا لیتا ہوں۔‘‘

پروفیسر محمد اقبال جاوید بہت مرصّع تحریر رقم فرماتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے سامنے الفاظ سرِ تسلیم خم کیے رہتے ہیں۔ہاتھ باندھے ان الفاظ سے پروفیسر صاحب نگینے جڑنے کا کام لیتے ہیں۔ تحریر اس قدر مؤثر اور بھرپور ہوتی ہے کہ قاری اس کے سحر میں گرفتار رہتا ہے۔ اس قدر جاذب نظر اور دل کش تحریر لکھنے والے ہمیں کم میسّر ہیں۔ فی زمانہ پروفیسر اقبال جاوید کا اس حوالے سے دم غنیمت ہے۔

’’تمناّؤں کی زیرِ نظر قوسِ قزح، ہمارے تاریخی آثار کو یوں ورق ورق روشن کرتی چلی جارہی ہے کہ ناظر، تصوّر کی ایک دل آویز دنیا میں کھو سا جاتاہے اور ماضی کی درخشانی، حال کی لٹی ہوئی صبحوں اور بجھی ہوئی شاموں کو اُجالتی چلی جاتی ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری کی یہ آرزوئیں، اپنے جلو میں جھلملاتے آنسوؤں کا خراج بھی لیے ہوئے ہیں اور لرزتے قلم کا نیاز بھی کہ یہی وہ بارگاہِ ناز ہے جس کی محبت ہمارا قبلۂ مراد اور کعبۂ شوق ہے۔‘‘

صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی تمنّائے حضوری کے باب میں خراجِ عقیدت اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’محترم ریاضؔ حسین چودھری انھی بیدار بخت لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی آرزو بڑی مختصر مگر بہت ہی معتبر ہے، آرزو تو ایک ہے البتہ اس کے اظہار کے پیرائے متعدد اور اسالیب متنوع ہیں۔‘‘

تمنّائے حضوری درحقیقت حاضری کی متلاشی ہے۔ ریاض حسین چودھری کی تمنّائے حضوری ایک تڑپ اور ولولۂ تازہ لیے ہوئے ہے۔ یہ تمنّائے حضوری صرف ایک پھیرے کی خواہش نہیںبلکہ عمرِ رفتہ کے لمحات مستقل پھیروں کا تسلسل چاہتے ہیں۔ تمنّائے حضوری کی چاہت رکھنے والا مصائب و آلام اوررنج و محن سے نہیں گھبراتا۔ وہ اس کیفیت میں سرِ مقتل بھی جانے کے بعد زندہ ہے۔ شاعر کی فکر کا انداز اس شعر میں دیکھیے ؎

مصائب کو میں کب خاطر میں لاتا ہوں مرے آقا
تمنّائے حضوری میں سرِ مقتل بھی زندہ ہوں

متاعِ قلم مئی 2001ء (چوتھا مجموعۂ نعت)

’’متاعِ قلم‘‘ کو بھی یکم ربیع الاوّل 1422ھ (مطابق 2001ئ) کی نسبت حاصل ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے یہ ریاضؔ حسین چودھری کا چوتھا کلامِ نعتیہ ہے۔ القمر انٹرپرائزرز، رحمن مارکیٹ اُردو بازار،لاہور اس کے ناشر ہیں۔ 186صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ 23x36=16 کے سائز میں مجلّد شائع ہوا ہے۔

اس کتاب کا انتساب دیکھیے ’’دادا مرحوم حاجی عطا محمد والدِ مرحوم الحاج چودھری عبدالحمید کے نام، جن کی آغوشِ تربیت نے ہوائے مدینہ سے ہم کلامی کے شرفِ دل نواز سے نوازا۔‘‘ متاعِ قلم کے پاس داروں میں ریاضؔ حسین چودھری کے اُستاذِ گرامی آسیؔ ضیائی اور ڈاکٹر سلیم اختر شامل ہیں۔ اس کتاب میں حمد ونعت، پابند و آزاد نظمیں اور قطعات کی کہکشاں سجی ہے۔

’’زرِمعتبر‘‘ حاصل کرنے والا شاعر ’’رزقِ ثنا‘‘ کی دولتِ لازوال حاصل کرنے کے بعد ’’تمنّائے حضوری‘‘ سے مکیّف ہو جاتا ہے۔ زرِ معتبر، رزقِ ثنا اور تمنّائے حضوری کا تسلسل اِسے متاعِ قلم کی مسلسل گردان محمد محمد سے آشنائی کا سفر پختگی کے مدار میں داخل کر دیتا ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری کی متاعِ قلم کی آبرو ’’محمد‘‘ کے ادا شناس ہونے کے سبب اپنی فکرِ جدید کے زر و جواہر بصورتِ نعت لُٹائے چلی جارہی ہے۔

آسیؔ ضیائی، ریاضؔ حسین چودھری کے اُستاذِ گرامی ہیں۔ شاعرِ موصوف کو آسیؔ ضیائی سے مشورۂ سخن کی بھی سعادت حاصل ہے۔ اُستاذِ گرامی نے انتہائی بلیغ انداز میں اپنے شاگردِ رشید کی خداداد صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔یہ اعترافِ حقیقت سند کا درجہ رکھتا ہے۔

’’پڑھنے والا خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاعر کا ہر شعر محبت و عقیدتِ رسول کی ُکھلی تصویر ہے۔ اور اس میں سے شاعر کے سچّے، مخلصانہ جذبات پھوٹے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی، قاری یہ بھی محسوس کرے گا کہ نعت نگار نے اندازِ بیان میں بھی، اور فکر و خیال میں بھی، جدّت طرازی کو ملحوظ رکھا ہے، جب کہ کہیں بھی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔‘‘

متاعِ قلم کی افادیت و اہمیت اجاگر کرنے والوں میں ڈاکٹر سلیم اخترؔ کا نام بھی نمایاں ہے۔موصوف نے اپنی تحریر میں دنیادار شاعروں کا تذکرہ کرتے ہوئے ریاضؔ حسین چودھری کے وصفِ خاص کا ذکر کیا ہے کہ وہ دنیادار شاعر نہیں۔

’’ریاضؔ حسین چودھری نام و نمود کے سراب کے لیے سرگرداں نہیں۔ انھوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیرِ اثر اختیار کی ہے، اس لیے وہ مدحتِ رسول کو مقصودِ فن اور ثنائے رسول ہی کو قبلۂ فن جانتے ہیں۔ ریاضؔ حسین چودھری دنیاداری کے تقاضوں والے دنیادار شاعر نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔‘‘

ریاضؔ حسین چودھری اپنے حمد و نعت کے کلام سے پہلے ایک دل لُبھاتا جامع شعر قرطاس کے سینے پر سجاتے ہیں۔ اس مرتبہ اُنھوں نے یک نہ شد دو شد والی روایت کو اپنایا ہے۔ پہلے شعر میں نکیرین کی بازپُرس منظوم ہے جبکہ دوسرے شعر میں میدانِ محشر اور بخشش کی یاوری کی کیفیت ہے۔ دونوں اشعار عالمِ فنا سے جانبِ بقا کی بابت ہیں۔ فکرِ ریاضؔ کے اس اچھوتے انداز کو دیکھیے ؎

لحد میں پوچھا نکیرین نے کہ کون ہو تم
حضور، آپ کا بس نام حافظے میں رہا

سرحشربخشش کے ساماں کے حوالے سے اس شعرکی اُٹھان دیکھیے۔

فرشتوں نے بیاضِ نعت میرے ہاتھ پر رکھ دی
مری بخشش کا بھی محشر میں ساماں ہونے والا ہے

ریاضؔ چودھری کا یہ شعر بھی رنگِ تغزّل کا شاہکار ہے۔ ریاضؔ چودھری کی ریاضِ غزل ریاضتِ نعت میں ڈھل چکی ہے۔

اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا
قندیل بن کے دل کے جھروکوں میں جل ذرا

کشکولِ آرزو مئی 2002ء (پانچواں مجموعۂ نعت)

’’کشکولِ آرزو‘‘ کو بھی یکم ربیع الاوّل 1423ھ (مطابق مئی 2002ئ) کی پُرنور سعادت میسّر ہے۔ ریاض حسین چودھری کی مستقل ریاضتِ نعت کی یہ پانچویں گواہی ہے۔ اس کتاب کے ناشر القمر انٹرپرائزرز، غزنی اسٹریٹ اُردو بازار،لاہور ہیں۔ صفحات کی تعداد 168 ہے، سائز 23x36=16 اور کتاب مجلّد طبع ہوئی ہے۔

کشکولِ آرزو کا انتساب ان الفاظ میں تحریر ہے ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔ کشکولِ آرزو بھرنے والوں میں پروفیسر عبدالعزیز، پروفیسر ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری اور پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی شریک ہیں۔

اس کتاب میں پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظمیں شاہکار فن پاروں کی صورت میں موجود ہیں۔ 1988ء کی پہلی نعتیہ نظم، نارسائی کا موسم، بے اماں اور فرار چند حَسین فن پارے ہیں جو اپنے تمام تر علامتی نظم کے ساتھ فہم و ادراک کے بھی مبلغ ہیں۔ اس ریاضِ مدحت کا نعتیہ سفرہمیشہ حمد کے سائے میں پروان چڑھتا ہے۔ اس ریاضِ نعت کی حمد بھی نعت کے جلوؤں کا عکاس ہوتی ہے۔ اکثر فکرِ ریاض میں حمد و نعت کا حَسین سنگم دیکھنے کو ملتا ہے۔

پروفیسر عبدالعزیز اپنے کشکولِ آرزو کو بھرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری ’’فرمانِ کشکولِ آرزو‘‘ میں رقم طراز ہیں… کیسی خدا لگتی بات کہی ہے۔ اس حقیقت سے انحراف ناممکن ہے۔

’’ریاضؔ حسین چودھری کو شرفِ نعت گوئی منجانب اللہ ملاہے، یہ عطیۂ خداوندی اور توفیقِ الٰہی ہے، کسب و ریاضت سے کیا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، مگر شرفِ نعت گوئی نہیں، یہ صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔‘‘

کشکولِ آرزو کے آخری شریک ممتاز ماہر تعلیم، ادیب و نقّاد پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفیؔ مرحوم ہیں۔ وہ بھی کشکولِ آرزو کے تمنائی ہیں۔ ریاضؔ کی ریاضتِ نعت کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

’’ریاضؔ کی نعت سُرورِ دل و جاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوش کی تابانیوں کے ساتھ ان تمام حقائق کا آئینہ خانہ بھی ہے۔ اُس کی نعت حدیثِ دل بھی ہے، مرثیۂ ملّت بھی اور مجاہد کی یلغار بھی۔‘‘

ریاضِؔ نعت نے اپنی ریاضتِ نعت کی دیرینہ روایت کو نبھاتے ہوئے اپنے کلام سے پہلے صفحۂ قرطاس پر اس شعر کو ثبت کیا ہے۔ یہ شعر ریاض کی ریاض نعت کا معتبرحوالہ ہے ؎

میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاضؔ
جب بھی سوچوں گانبی کی نعت ہی سوچوں گا میں

سلامُٗ علیک اکتوبر 2004ء (چھٹا مجموعۂ نعت)

’’سلامٌ علیک‘‘ اکتوبر 2004ء کا طبع شدہ ہے۔ ریاض حسین چودھری کی ریاضتِ نعت کی یہ چھٹی منزل ہے۔ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، -11گنج بخش روڈ، لاہور نے اس کی طباعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ یہ کتاب 114 صفحات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب کا انتساب ملاحظہ کیجیے۔ ’’ان ملائکہ کے نام، جو درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لے کر، صبح و شام گنبدِ خضرا کے جوارِ کرم میں اُترتے ہیں اور آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر حضوری کی سرشاریوں سے ہم کنار ہونے کا شرفِ عظیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اس کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ ڈاکٹر ظہور احمد اظہرؔ کا تحریر کردہ ہے۔ سلامٌ علیک کے دیگر عقیدت نگاروں میں مظفرؔوارثی اور ڈاکٹر ریاضؔ مجید شامل ہیں۔

سلامٌ علیک کو شاعر نے ’’اکیسویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم قرار دیا ہے۔ سلامٌ علیک بدرگاہِ خیرالانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درودوں کا گجرا اور سلاموں کی ڈالی ہے۔ یہ قصیدۂ نعتیہ بحر متقارب کے ایک ہی طویل قصیدے سے عبارت ہے۔ اسے اُردو زبان کا ایک طویل نعتیہ منظومہ (قصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں) یہ قصیدہ تقریباً چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ بشرطیکہ سلامٌ علیک والا ایک شعر بھی ہر بند کے ساتھ شمار کیا جائے تو آٹھ سو اشعار بنتے ہیں۔ بنود (بند کی جمع) ہے۔

ریاضؔ چودھری نے اس طویل نعتیہ قصیدہ میں ابتداء میں ایک منفرد و یکتا شعر کہنے کی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ مصرعے میں چشم نم کو ’’فضائے طیبہ‘‘ کی نازکی کا احساس دلایا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مدینہ منوّرہ کا تقدس اور درودوں کے آداب سکھائے ہیں۔ شعری قدرت اور رنگِ مدحت کے اس انداز کو اپنے دل میں جگہ دیجیے۔

برستی آنکھو! خیال رکھنا بہت ہے نازک فضائے طیبہ
مدینے آئے تو چپکے چپکے درود پڑھ کر سلام کرنا

جو کام اللہ ربّ العزت جلَّ جلالہٗ کے پاک نام سے یا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع نہیں کیا جائے گا وہ نامکمل اور خیروبرکت سے دور رہے گا۔ ریاضؔ حسین چودھری اس حسین و جمیل کلّیہ سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اپنی ہر کتاب کو حمد و ثنا کے نور سے مزّین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نعتیہ قصیدہ کے پہلے پانچ بند اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے شاہد ہیں۔ سلامٌ علیک کے شاعر نے بھی زندہ معجزاتی کتاب قرانِ کریم کے معنی اور مفاہیم کو اپنے پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس نعتیہ قصیدہ کا نقطہ آغاز دیکھیے۔

قلم سر جھکائے ورق کی جبیں پر
سجائے دیے شب کو قصرِ یقیں پر
حکومت ہے اس کی فلک پر زمیں پر
خدا آپ کا سب سے اعلیٰ و بالا
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!

قلم کی نوک، ورق کی جبیں، شب کے چراغ اور یقیں کے قصر یعنی ابتدائی تین مصرعے اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور ربوبیت کے گواہ ہیں جب کہ آخر کے تین مصرعے نغماتِ درود و سلام کے امین ہیں۔ پہلے پانچ بندوں میں حمد و ثنا کا التزام ہے۔ جب کہ اس نعتیہ قصیدہ کا چھٹا بند تعریف و توصیفِ ثنائے مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا حُسنِ آغاز ہے۔

تصوّر میں سرکار در پر کھڑا ہوں
سمٹ کر نگاہوں میں بھی آگیا ہوں
حضور آپ کی نعت لکھنے لگا ہوں
عطا کیجیے کوئی حرفِ منزّہ
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!

شاعر نے تصوّر جما کر درِ سرکار پر رسائی حاصل کی ہے۔ اپنی تمام توانائیوں کو بھی یکجا کرلیا ہے۔ شاعر حضور کی نعت لکھنے کا ملتجی ہو کر حرف منزّہ کا متلاشی ہے۔ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے بعد پھر دوسرا اور تیسرا بند مدح سرکار کے موتی رول رہا ہے۔ شاعر کو نعت کے طفیل جذبات کی شدت اور الفاظ کی ندرت حاصل ہے۔

خلدِ سخن 2009 ء (ساتواں مجموعۂ نعت)

’’خلدِ سخن‘‘ 2009ء کا اشاعت شدہ ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری کی ریاضتِ نعت کی یہ ساتویں گواہی ہے۔ القمر انٹرپرائزرز، غزنی اسٹریٹ اُردو بازار، لاہور نے اس کی حُسنِ طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 232 صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ نعت مجلّد شائع ہوا ہے۔ اس کا سائز 23x36=16 ہے۔

کتاب’’ خُلدِ سخن ‘‘ کا انتساب ریاضؔ حسین چودھری نے ’’والدۂ مرحومہ کے نام‘‘ کیا ہے۔ خُلدِ سخن کی برکات سمیٹنے والوں میں ابوالامتیاز ع س مسلم، پروفیسر محمد اکرم رضا، ڈاکٹر محمد طاہرؔ القادری اور طارق سلطان پوری کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

مجموعہ نعت خُلدِ سخن میں حسبِ سابق پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظمیں شاہکار فن کے دوام میں شامل ہیں۔ ’’یاخدا‘‘ کے عنوان سے نئی اندازکی حمد موجود ہے۔ اس کے بعد ’’کشکولِ دعا‘‘ دراز ہے۔ جس میں ریاض کی ریاضتِ نعت کے دل کش اور جدید انداز شامل ہیں۔ المدد یا خدا، الکرم یا نبی، حمد و نعت کا مثالی شاہکار ہے۔ سلام بدرگاہِ خیرالانام میں اُمت مظلوم کی زبوں حالی اور عہدِ گزشتہ کی رفعت کو منظوم کیا ہے۔ التجائے اُمت اکیسویں صدی کی پہلی دعائیہ نظم، صدی آشوب، منظرنامہ (نعتیہ سانیٹ)، گلاب رُت رتجگے منائے، ہلال عید میلادالنبی 1998ء التماس کے علاوہ آزاد نظموں کی کہکشاں بھی سجی ہے۔

خُلدِ سخن ہو یا ریاض حسین چودھری کے دیگر مجموعہ ہائے نعت، سب کا مرکزِ نگاہ اور محورِ محبت صرف اور صرف نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ پاک ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعوں میں والہانہ وابستگی، بے اختیار خود سپردگی کا اظہار موجزن ہے۔ ریاض کی فکر و نگاہ کا محور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب اور نگاہِ کرم کا ضامن ہے۔ اظہار کی سچائی اور الفاظ کی توانائی اسی بارگاہ سے عطا ہوتے ہیں۔

طویل بحریں بھی ریاض چودھری کی دسترس میں ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہیں۔ وہ اکثر اپنے آہنگِ نوکو طویل بحروں میں استعمال کرتے ہیں۔ طویل بحر کی طوالت کے باوجود الفاظ کی ندرت اور روانی و سلاست اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔

شاعرِ موصوف کی نعت گوئی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ کرم کے طفیل روز افزوں ارتقا پذیر ہے۔ شاعرِ خوش نوا جدید تراکیب اور نئے نئے الفاظ سے اپنے کشکولِ نوا کو نایاب کر رہے ہیں۔

ریاضؔ چودھری کتاب کے آغاز میں منفرد و یکتا شعر دینے کی روایت برقرار رکھتے ہیں۔ شاعر کی ریاضتِ نعت کے دو شعر دیکھیے ہر دو اشعار فکر و نظر کو منور اور قلب و روح کو سیراب اور صریر کو نغمگی کی تازگی بخش رہے ہیں۔

میں نے دیکھا ہے ہجومِ ماہ و انجم کا فروغ
ایک سجدہ خاکِ طیبہ پر ادا کرتے ہوئے
٭
تکمیلِ شخصیت کی خیرات مانگتا ہے
دربارِ مصطفی میں ہر اک صدی کا موسم

پہلے شعر میں خاکِ طیبہ کی عظمت کا بیان ہے جہاں ماہ و انجم سجدہ ریزی کررہے ہیں جب کہ شعر ثانی میں ہر اک صدی کا موسم دربارِ مصطفی میں تکمیلِ شخصیت کے لیے خیرات کا طلبگار ہے۔

غزل کاسہ بکف جنوری 2013ء (آٹھواں مجموعۂ نعت)

’’غزل کاسہ بکف‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ہے جو 12؍ ربیع الاوّل 1434ھ کی نسبت سے 25 جنوری 2013ء کا طبع شدہ ہے۔ اس کتاب کے تقسیم کار مکتبہ تعمیرِ انسانیت، غزنی اسٹریٹ اُردو بازار، لاہور ہیں۔ 23x36=16 کے سائز میں یہ کتاب 214 صفحات پر مشتمل ہے جو مجلّد شائع ہوئی ہے۔

غزل کاسہ بکف کا انتساب ’’رفیقانِ مدینہ کے نام جن کی حُبِّ رسول سے معمور سنگت نے سوز و گداز کی نئی کیفیات سے ہم کنار کیا۔‘‘ اس کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں میں بشیر حسین ناظمؔ، شیخ عبدالعزیز دباغ،ؔ ریاضؔ حسین چودھری، ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری، ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی،ؔ ڈاکٹر سلیم اخترؔ، احمد ندیمؔ قاسمی، حفیظ تائبؔ اور ڈاکٹر ریاض ؔمجید کے نام شامل ہیں۔

دو حمدوں کے بعد غزل کاسہ بکف کی پہلی نعت چار سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ہشت نعتیہ میں آٹھ نعتیں ہیں اور ہر نعت پچاس اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد چہار نعتیہ، سہ نعتیہ، دو نعتیہ اور مزید چند ایک نعتیں شامل ہیں۔ ریاض حسین چودھری کا ہر نعتیہ مجموعہ نئی کیفیات اور نو بہ نو تراکیب کا شاہکار ہوتا ہے۔

بشیر حسین ناظم شعر و سخن اور علم و ادب کا ایک معتبر نام ہے۔ اس کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ بشیر حسین ناظم کی ندرت کاری کا آئینہ دار ہے۔ یوں تو پورا پیش لفظ ہی عقیدتِ ریاض سے مزّین ہے مگر یہ چند سطور خراجِ ریاض کا بیّن اظہار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ریاض حسین چودھری کی یہ کاوش عرش و فرش میں پذیرائی پائے اور مسلمانانِ عالم اسے پڑھیں۔ ان کی غیرت و حمیّت جاگے اور وہ حماسۂ حسینی پر عمل کرکے اسلام کی شوکت و سطوت کو بحال کریں۔‘‘

شیخ عبدالعزیز دباغ کی بھی ایک قابلِ قدر اور مرصّع تحریر اس میں شامل ہے۔ دباغ صاحب نے بارگاہِ ریاض میں اپنی قلمی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائیتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاضؔ کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کو سُرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اُٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حُسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔‘‘

’’غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے ان کی گلیوں میں‘‘کے عنوان سے ریاض حسین چودھری لکھتے ہیں :

’’اس حقیقت کو چراغِ راہ بنانا ہوگا کہ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کو کہتے ہیں۔ اقلیم نعت میں کسی قسم کی بے تکلفی کو داخلے کی قطعاً اجازت نہیں۔‘‘

اس کتاب کے اوّل صفحہ پر ریاض چودھری کا یہ شعر درج ہے ؎

آقا ہمارے نورِ مجسّم ہیں، ہر طرف
اللہ کے بعد صرف ہے چانن حضور کا

بعد کے صفحات میں ریاض حسین چودھری کا یہ محتاط شعر قصرِ ادب کا بہترین حوالہ ہے ؎

لکھے عروسِ شہرِ غزل نعتِ مصطفی
قصرِ ادب کے سبز حوالو! ادب، ادب!

طلوعِ فجر جنوری 2014ء (نواں مجموعۂ نعت)

’’طلوعِ فجر‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کی ریاضتِ نعت کی نویں شہادت ہے۔ 12؍ ربیع الاوّل 1435ھ کی مناسبت سے یہ کتاب جنوری 2014ء میں شائع ہوئی ہے۔ القمر انٹرپرائزرز، غزنی اسٹریٹ،اُردو بازار، لاہور اس کے ناشر ہیں۔ 518 صفحات پر محیط یہ کتاب مُجلّد شائع ہوئی ہے۔ اس کا سائز 23x36=16 ہے۔

طلوع فجر کے اوّلین اندرونی سرورق کی پشت پر ریاض حسین چودھری کی صمیمِ قلب سے مانگی گئی دعا کے انداز کو دیکھیے۔ ’’اے خدا ! میں تجھ سے تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلہ مانگتا ہوں وہ یہ کہ میرے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرما۔ آمین۔‘‘ اس کتاب کا انتساب دیکھیے ’’حاجی محمد رفیق الرفاعی کے نام، جن کی انگلی تھام کر میں نے طوافِ کعبہ مکمل کیا۔‘‘ اس کتاب پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر اسحاق قریشی، زاہد بخاری اور ریاض چودھری شامل ہیں۔

ریاضؔ حسین چودھری کا یہ نواں مجموعہ طلوعِ فجر آقائے دو جہاں، باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے مشروط ہے۔ شاعر محترم نے آقائے محتشم و مکرم کے یومِ ولادت کے حوالے سے 500 بنود پر مشتمل یہ طویل نعتیہ نظم کہی ہے۔ ہر بند چھ چھ اشعار کا خلاصہ، ماحصل اور تتمّہ منظوم کیا ہے۔ شاعرِ موصوف نے اس طویل نعتیہ نظم میں بھی اپنی فکر کی جولانی اور اپنی دیرینہ ہنرمندی کے جوہر منظوم کیے ہیں۔

عربی ادب کے بالغ نظر ادیب و نقاد اور ’’برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھنے والے محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی نے طلوعِ فجر کا ’’پیش لفظ‘‘ لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی تحریر میں الفاظ کی جاذبیت اور جملوں کی چاشنی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔اپنی تحریر سے وادیٔ رنگ و نور کی سیر کروا دیتے ہیں۔ تحریر کا یہ ملکہ ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ریاضؔ حسین چودھری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، متعدد مجموعے اُن کی نعت شناسی کا ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاض حسین چودھری کے شب و روز کا جائزہ ان کی یک رنگی کی شہادت ہے۔ یہ طویل نظم جو نعتیہ ادب میں ممتاز مقام لے گی، شاعرِ حق نما کے فطری میلان کا نتیجہ ہے۔‘‘

زاہد بخاری نے اپنے فلیپ میں ریاضؔ حسین چودھری کی دیگر خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔

’’طلوعِ فجر عشق سرکار کی ایک لازوال شعری دستاویز ہے جس کا ایک ایک مصرع محبت رسول کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے کہیں بھی ابلاغ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔‘‘

’’تاریخِ کائنات کا سب سے بڑا دن‘‘ کے عنوان سے ریاض حسین چودھری نے اپنے ان زرّیں اور مرصّع خیالات کو پیش کیا ہے۔

’’پاکستان قریۂ عشقِ محمد ہے، ہم غلامانِ رسولِ ہاشمی کا حصار آہنی ہے۔پاکستان عالم اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ یومِ میلاد وطنِ عزیز کی سلامتی کے لیے بارگاہِ خداوندی میں التجاؤں اور دعاؤں کا دن ہے، اُمتِ مسلمہ پر آنے والی ہر خراش پر مرہم رکھنے کا دن ہے، یہ دن پوری کائنات کے لیے عیدِ مسرت ہے۔‘‘

ریاضؔ حسین چودھری جدید اُردو نعت کے نمایندہ شاعر ہیں۔ منفرد اسلوب ان کی تخلیقی پہچان کا بنیادی حوالہ ہے۔ ان کے تخلیق کردہ اشعار ِ نعت نبضِ حیات اور رفتارِ نعت کو تیز تر کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ کتاب کے شروع میں ابتدائی شعر کے حوالے سے یہ گراں قدر شعر دیکھیے۔ شاعر کا تخیل اور پروازِ فکر کی جولانی ملاحظہ کیجیے۔

دونوں عیدیں پیشوائی کے لیے آتی رہیں
تیرا ثانی ہی کہاں ہے عیدِ میلادالنبی

آبروئے ما جنوری 2014ء (دسواں مجموعۂ نعت)

’’آبروئے ما‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کی ریاضتِ نعت کی دسویں گواہی ہے۔ اس کی طبع اوّل 12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء ہے۔ کتاب کی خوبصورت طباعت کا اہتمام القمر انٹرپرائزرز، غزنی اسٹریٹ، اُردو بازار،لاہور نے کیا ہے۔ آبروئے ما 240 صفحات پر مُجلّد شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب 23x36=16 کے سائز میں ہے۔

کتاب کے اندرونی سرورق کی پشت پر ریاض چودھری کی یہ خوش نما تحریر ثبت ہے ’’اے خدا! میں تجھ سے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا صلہ مانگتا ہوں وہ یہ کہ قیامت تک میری آنے والی نسلیں حضور کے حلقۂ غلامی میں رہیں اور بعد حشر بھی زنجیرِ غلامی کی کڑیاں ٹوٹنے نہ پائیں۔‘‘

چودھری صاحب نے اس کتاب کا انتساب ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ آبروئے ما پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر خورشید رضوی اور سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی کے نام شامل ہیں۔

’’آبروئے ما‘‘ فکرِ ریاض کا جدید انداز میں اظہاریہ ہے جس میں نعت کے خوش رنگ اور شاہکار متفرقات شامل ہیں۔ حمدِ ربِّ کائنات، حمد و نعت، سلام، ثنائے خواجہ، قطعات، ثلاثی اور فردیات آبروئے ما کے دل کش موضوعات ہیں۔ شاعر نے جگہ جگہ اپنی جدّتِ فکر اور وسعتِ نظر کے مظاہر پیش کیے ہیں۔ سلاست اور روانی کا انداز رنگ ونور اور کیف و سرور سے آشنا کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس کتاب کا ’’حرفِ آغاز‘‘ تحریر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔‘‘

سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی،والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔‘‘

ریاضؔ چودھری کی نعتیہ شاعری زودگو شاعر کی شاعری ہے۔ زودگوئی کے باوجود ان کے ہاں اسلوب میں یکسانیت کا شائبہ تک نہیں۔ کثرتِ شاعری کے ضمن میں ایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ شاعر کے ہاں صرف اپنی وارداتِ قلبی کا ذکر نہیں بلکہ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ یہ پوری اُمت کا استغاثہ ہے بارگاہِ رسالت میں۔

ریاضؔ حسین چودھری اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہوتاہے۔ دیکھئے یہاں وہ اس روایت کو کیسے نبھا رہے ہیں ؎

اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں
مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا

زم زمِ عشق جنوری 2015ء (گیارہواں مجموعۂ نعت)

’’زم زمِ عشق‘‘ ریاض حسین چودھری کا گیارہواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ اس کا سالِ اشاعت بھی بارہ ربیع الاوّل کی پُرنور ساعتوں کا گواہ ہے۔ بارِ اوّل 12؍ ربیع الاوّل 1436ھ مطابق 4؍جنوری 2015ء ہے۔ القمر انٹرپرائزرز رحمن مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ اُردو بازار، لاہور اس کے ناشر ہیں۔ 224 صفحات کی یہ کتاب مجلّد اور 23x36=16 کے سائز میں طبع شدہ ہے۔
زم زمِ عشق کے ابتدائی سرورق کے بعد فکرِ ریاض کا بارگاہِ خداوندی میں نعت اوراُمتِ مسلمہ کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے لیے تڑپ، دردمندی اور سوز و گداز کے اس اندازکو دیکھیے ’’اے خدا! میں تجھ سے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا صلہ مانگتا ہوں۔ وہ یہ کہ اُمتِ مسلمہ کو عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے سفر پر نکلنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘

اس کتاب کا انتساب ’’یارِ غار سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق g کے نام‘‘ سے منسوب ہے۔ زم زمِ عشق سے جام پرجام پینے والوں میں ڈاکٹر عزیز اَحسن، شیخ عبدالعزیز دباغ، پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ اور راجا رشید محمود شامل ہیں۔ زم زمِ عشق سے جرعہ نوشی کرنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں جام پر جام ُلنڈھائے ہیں۔

گیارہویں نعتیہ مجموعہ میں کلام کی ترتیب اس انداز سے رکھی گئی ہے۔ حمدِ ربِّ کائنات، حمد و نعت، سلام، سہ نعتیہ، دو نعتیہ، ثنائے خواجہ، قطعات، ثلاثی اور فردیات شامل ہیں۔ فکرِ ریاض نے اس مجموعے میں بھی اپنی انفرادیت کے دیپ جلائے ہیں۔ جدّت طرازی اور معنی آفرینی کلام کی خصوصیات کو دوآتشہ کر رہی ہے۔

شیخ عبدالعزیز دباغ کی خوبصورت اور دل نشیں رائے کا یہ انداز دیکھیے۔

’’جب آپ ریاضؔ کے لفظوں میں جھانکیں گے تو تجلّیاتِ حضوری آپ کے قلب و نگاہ کو لذّتِ نظارہ سے سرشار کرتی نظر آئیں گی‘‘۔
’’زم زمِ عشق … حدیثِ دل مہجوراں‘‘ کی سرخی کے ساتھ ڈاکٹر عزیز احسن نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
’’ان کا کلام بڑا متاثر کن ہے بلکہ اپنے لہجے کی انفرادیت کے حوالے سے ’’ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے‘‘ کا جواز بھی پیش کر رہا ہے۔‘‘

پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ کے تاثرات کا انداز ملاحظہ کیجیے۔

’’ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو و دیدارِ مصطفی کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔ریاض صاحب جب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اُمت کی زبوں حالی کی فریاد کرتے ہیں تو اس رقت سے کرتے ہیں کہ ان کی ندا بادِ صبا سے پہلے دربارِ مصطفی میں پہنچ جاتی ہے۔‘‘

پاکستان میں نعت کے موضوع پر سب سے زیادہ اور بامقصد کام کرنے والے راجا رشید محمود اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ان کی نعت کا ہر مصرع عقیدت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور توجہ محبوب کبریا (علیہ التحیۃ والثنائ) کی گود کے لیے ہمکتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘

ریاضؔ حسین چودھری نے پہلی مرتبہ سرورق پر اپنا کوئی شعر دیا ہے۔ اپنی روایات سابقہ کو بھی برقرار رکھا ہے۔ چراغِ نعت نے ان کے چھوٹے سے کمرے کو روشن کر دیا ہے۔ ان کے آنگن میں چڑیاں بھی درود خوانی کی محافل سجاتی ہیں ؎

چراغِ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں
مرے آنگن کی چڑیاں بھی درودِ پاک پڑھتی ہیں

ایک دوسرے شعر میں وہ اپنی قلبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؎

شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے ہے میری دوستی
جو مدینے کا ہے موسم وہ مرے اندر کا ہے

تحدیثِ نعمت دسمبر 2015ء (بارہواں مجموعۂ نعت)

’’تحدیثِ نعمت‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کی ریاضتِ نعت کی بارہویں گواہی ہے۔ یہ مجموعہ نعت بھی صبحِ بہاراں کی پُرنور ساعتوں میں منصہ شہود پر آیا ہے۔ بارِ اوّل 12؍ ربیع الاوّل 1437ء مطابق 24؍ دسمبر 2015ء ہے۔ 256 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مُجلّد ہے۔ اس کا سائز بھی حسبِ روایت ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیشنل نعت مرکز پبلی کیشنز، غزنی اسٹریٹ، اُردو بازار، لاہور نے شائع کیا ہے۔

اندرونی سرورق کی پشت پر اللہ ربّ العزّت جل جلالہٗ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں صلۂ نعت چاہتے ہوئے یہ التجا موجود ہے ’’اے خدا ! میں تجھ سے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا صلہ مانگتا ہوں۔ وہ یہ کہ میرے قلم کو بنو نجّار کی بچیوں کا سوز و گداز عطا کر اور اسے ہوائے مدینہ سے ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرما۔‘‘

تحدیثِ نعمت کا انتساب ’’مرادِ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سیّدنا حضرت عمرِ فاروق g کے نام‘‘ سے منسوب ہے۔ اس کتاب پر صرف ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کی رائے ’’مدحت نگارِ رسول کا ارمغانِ عجزو نیاز‘‘ کے عنوان سے موجود ہے جب کہ گزشتہ احباب کی مختصر آراء بھی فلیپ کی زینت ہیں۔ پہلے ریاض چودھری کی کتاب کا نام پھر اس کا سالِ اشاعت دیا گیا ہے۔ پھر لکھنے والوں کی مختصر مختصر آراء ناموں کے ساتھ شامل ہیں۔ یہ نیا انداز جاذبِ نظر ہے۔

اس کتاب میں حمدِ ربِّ جلیل، دعا،حمد ونعت، دو نعتیہ، سلام، تحدیثِ نعمت، ثنائے حضور، قطعات، ثُلاثی اور فردیات کی قوسِ قزح شامل ہے۔ پہلی مرتبہ کتاب کے مرکزی سرورق پر ایک تازہ اور دلکش نعت جان دار ردیف و قافیہ کے ساتھ رنگ و نور بکھیر رہی ہے۔

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کی مختصر رائے بھی مزہ دے رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ریاض حسین چودھری کی زندگی میں جہاں عشقِ رسول کی تپش ہے وہاں بارگاہِ رسالت کے ادب نے عجز کا رنگ بھی پیدا کردیا ہے۔ اطاعتِ نبوی کے جذبے نے شاعر کو جو اُجالا دیا وہ اس کے چہرے کا نور بن گیا۔‘‘

ایک خوبصورت شعر دینے کی روایت بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ شاعرِ خوش نوا کا ہر لمحہ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سے مہکتا نظر آتا ہے۔ ریاض کی منزلِ عشق کا یہ عالم دیدنی ہے۔ تخیّل کی پرواز بھی سوا ہے۔ امنِ عالم کے لیے جو حقیقی نصاب کی تلمیح آخری خطبہ سے منسوب کی ہے اس کا تو جواب ہی نہیں ہے۔

مجھ سے پوچھا تھا کسی نے امنِ عالم کا نصاب
آخری خطبہ قلم سے خود بخود لکھا گیا

شاعری کے نقطۂ آغاز سے پہلے ریاض حسین چودھری کا یہ شعر بھی دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے۔ شاعر نے نعت کی قدامت کو عالمِ ارواح سے پیوست کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جس سے سرِمو انکار ممکن نہیں۔ یہاں قلم کا رقص مزہ دوبالا کر رہا ہے۔

عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم
یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے

اس جدید لب و لہجے کے شاعر نے اپنے اسلوبِ نعت کو جدّت آشنا کردیا ہے۔ ریاض کی فکرِ نعت اسلوب کے نئے نئے پیکر تراشتی ہے۔ ان کی نعتیں تازگی اور جدید احساس کی علامت ہیں۔

دبستانِ نو 2017ء (تیرہواں مجموعۂ حمد و نعت)

’’دبستانِ نو‘‘ ریاض حسین چودھری کا تیرہواں مجموعۂ حمد و نعت ہے جس کی خاصیت ہے کہ یہ نظمِ معرّا (ایسی نظم جس میں قافیے نہ ہوں) کا شاہکار ہے۔

اس کتاب کا پہلا حصہ باری تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل ہے۔ جب کہ اس کا دوسرا حصہ نعت رسولِ مقبول کی تعریف و توصیف سے مربوط ہے۔ غالباً حمد و نعت کے موضوع پر نظمِ معرّا کے حوالے سے یہ پہلی کتاب ہے۔

آغاز میں یہ دُعائیہ کلمات درج ہیں ’’اے خدا ! میں تجھ سے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا صلہ مانگتا ہوں وہ یہ کہ علم وحکمت اور دانائی جو مومن کی گم شدہ میراث ہے اُسے پھر سے اُمتِ مسلمہ کا مقدر بنا دے‘‘۔

دبستانِ نو کا انتساب دیکھئے ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے‘‘۔

کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے اور تفصیل سے ریاض حسین چودھری کے شعری محاسن کا جائزہ لیا ہے۔ فلیپ پر جلیل عالی اور شیخ عبدالعزیز دباغ کی آرا درج ہیں۔

لامحدود (حمدیہ) 2017ء (چودھواں مجموعۂ کلام)

’’لامحدود‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کا پہلا حمدیہ مجموعہ کلام ہے۔ جب کہ دیگر مجموعہ ہائے نعت کی ترتیب کے حوالے سے اسے چودہواں نمبر دیا جائے گا۔

انسانی فکر محدود اور موضوعِ حمد لامحدود ہے۔ مگر اس کے باوجود طبع موزوں رکھنے والے اپنے اپنے انداز میں اللہ ربُّ العزّت کی بارگاہ میں اپنا عجز و نیاز ضرور پیش کرتے ہیں۔
شاعرِ موصوف نے بھی اپنی حمدیہ فکر کو جدید انداز سے پیش کیا ہے۔ نعتوں کی طرح ریاض صاحب کی حمدیں بھی قابلِ توجہ ٹھہریں گی۔حرفِ آغاز میں یہ خوبصورت شعر دیا گیا ہے ؎

اتنے دیے جلانے کی توفیق کر عطا
ڈھونڈوں تو مجھ کو اپنا ہی سایہ نہ مل سکے

دُعائیہ کلمات ’’اے خدا ! میں تیرا ایک ناچیز بندہ تیری حمد و ثناء کا صلہ مانگتا ہوں۔ وہ یہ کہ روزِ محشر مجھے آقا e کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا‘‘۔

لامحدود کا انتساب سیّدنا حضرت عثمان غنی g کے نام ہے۔

کائنات محوِ درود ہے 2017 ء (پندرہواں مجموعۂ نعت)

’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ ریاض حسین چودھری کی مستقل ریاضتِ نعت کی پندرہویں گواہی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر اس کا قلمی مسوّدہ ہے۔ سوائے ناشر کے اس کتاب میں ہر چیز حُسنِ ترتیب کے ساتھ موجود ہے۔ انشاء اللہ اس کی ابتدائی تفصیل حُسنِ طباعت کے بعد صفحۂ قرطاس کی زینت بنے گی۔

اندرونی سرورق کی پشت پر حسبِ معمول ایک نئی دُعا بدرگاہِ قاضی الحاجات موجود ہے۔ ’’اے خدا! میں تجھ سے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا صلہ مانگتا ہوں۔ وہ یہ کہ خطۂ دیدہ و دل! پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ غلامانِ رسول کے ایٹمی اثاثہ جات کی حفاظت فرما۔‘‘

کتاب کا انتساب ’’شیر خدا سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کے نام‘‘ سے معنون ہے۔ اس مجموعہ نعت پر تاحال ریاض حسین چودھری کی دل کشا تحریر موجود ہے۔ تحریر کیا ہے دراصل حقیقت کشا قلم سے دل کی باتیں ہیں۔ جو دلوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ اس خدا لگتی تحریر کا مختصر اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ریاض حسین چودھری جدید نعت لکھنے کے علاوہ خوبصورت انداز میں نثر لکھنے پر قادر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’شعرائے نعت اپنے آقا کے سفیر ہوتے ہیں۔ اس سفارت کاری پر دونوں جہان ہی نہیں، کروڑوں جہان بھی ہوں تو قربان کیے جاسکتے ہیں۔ قصرِ اقتدار کی ساری توانیاں حضور کی غلامی پر نثار، کائنات کا ذرّہ ذرّہ حضور کے قدموں کی خیرات کا تمنّائی ہے۔ نعت شائستگی، متانت اور سنجیدگی کا آخری معیار ہے۔‘‘

کائنات محوِ درودہے کی حُسنِ ترتیب ایک نظر میں دیکھیے۔ اظہاریہ، دو حمدیہ، حمد و نعت، چہار نعتیہ، سہ نعتیہ، دو نعتیہ، ثنائے خواجہ کا تسلسل جاری ہے۔چودھری صاحب نے اس پندرہویں مجموعۂ نعت میں بھی جدّت طرازی اور ندرت کاری کے زر و جواہر بصورت نعت پیش کیے ہیں۔

شاعرِ موصوف نے یہاںپر بھی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بامعنی اور بامقصد شعر کو نذرِ قارئین کیا ہے۔

بفیضِ نعت عمرِ مختصر کی شامِ حیرت میں
جہاں تک یاد پڑتا ہے چراغاں ہی چراغاں ہے

ریاضؔ حسین چودھری کی ایک خصوصیت ہے جو اُنھیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں نت نئے مضامین، اسالیب نعت کی قوس قزح میں دھنک رنگ شامل ہیں۔ کہیں پر بھی یکسانیت کا گمان، خیال کی تکرار اور لفظوں کی ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ وہ شعوری طور پر نعت کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جدید نعت کی سوچ اور اظہار کے نئے نئے طریقے نظر آتے ہیں۔ ان کی نعتیں صرف صفحہ قرطاس پر نہیں بلکہ لوحِ دل میں جاگزیں ہوجاتی ہیں۔

ریاض صاحب کو نعتیہ قطعات نگاری میں بھی کمال حاصل ہے۔ وہ اپنی نعتوں کی طرح قطعات کو بھی اہتمام سے پیش کرتے ہیں۔ فردیات، ثلاثی اور قطعات نگاری ان کی شاعری کے بنیادی لوازمے ہیں۔ اس قطعہ میں معنوی تفہیم کے ساتھ اس کی روانی اور سلاست کے انداز کو دیکھیے۔

ورق ورق پہ سجود و قیام کرتے ہیں
درود پڑھ کے نبی کو سلام کرتے ہیں
تمام لفظ ادب سے خموش رہتے ہیں
درِ حضور پہ آنسو کلام کرتے ہیں

ایک اور نعتیہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

ہزار بار ہو سیراب آبِ زم زم سے
وضو کرے شبِ مدحت یہ چشم پُرنم سے
قلم کو چوم لے خوشبو دیارِ طیبہ کی
لکھوں میں نعتِ پیمبر ادب کے ریشم سے

ریاضؔ حسین چودھری جدید اُردو نعت کہنے والوں میں قابلِ صد احترام ہیں۔ یہ ان کے طبع شدہ مجموعہ ہائے نعت کا احوال ہے۔ جو اُن کے شایانِ شان تو نہیں، مگر ایک ادنیٰ سے عقیدت گزار کی عقیدت کا اظہار ضرور ہے۔

الحمدللہ ! میں ریاض چودھری کے کام اور کلام سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔

میرے مرتب کردہ تذکرہ و انتخابِ نعت ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘ میں بھی چودھری صاحب شامل ہیں۔ رنگِ ادب کے روحِ رواں شاعر علی شاعر نے اس سلسلے میں مجھے چند کتابیں دی تھیں جس کی مدد سے میں نے ریاض چودھری کا ایک مختصر تذکرہ لکھ کر اس کتاب میں شامل کیا ہے۔

بعدازاں برادرم صبیح رحمانی نے کائنات محوِ درود ہے کا مسوّدہ میرے پاس بھیجا کہ میں اس مجموعہ پر اپنے تاثرات رقم کروں۔ میں ان کی اس محبت پر سپاس گزار ہوں کہ اُنھوں نے مجھے ریاض کی ریاضتِ نعت سے قریب تر کردیا۔

جدید لفظیات اور نئی تراکیب کے حوالے سے میں ریاضؔ صاحب کی نعت سے بہت متاثر ہوں۔ درودِ پاک کی برکت سے اس مجموعہ کی ورق گردانی نے مجھے شرحِ صدر عطا کیا۔ معاً دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ اس عاشقِ نعت (ریاض حسین چودھری) کا تذکرہ میں اپنے انداز سے لکھوں۔ سو میرا مرتب کردہ یہ تذکرہ میری کج مج بیانی کا ادنیٰ سا اظہار ہے جس میں میری طالب علمانہ کاوشیں بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر شہزادؔ احمد
اتوار: یکم ربیع الاول 1439ھ
مطابق 20 نومبر 2017ء

مرکزِ ’’حمد و نعت‘‘ کراچی
03360245448
03012241467