لفظ باوضو ہوکر نمازِ عشق ادا کریں تو نعت ہوتی ہے (ریاض حسین چودھری)- کائنات محو درود ہے (2017)
لفظ باوضو ہوکر نمازِ عشق ادا کریں تو نعت ہوتی ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہی صنّاعِ ازل کی ہر تخلیق کے حسن وجمال کا مرکز و محور ہے۔ کائناتِ ارض و سما کی ہر روشنی اور روشنی کی ہر کرن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر کاسہ بکف ہے اور اجالوں کی خیرات کی طلبگار ہے۔ خورشیدِ جہاں تاب درِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیئے بغیر طلوع ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جہانِ رنگ و بو کے ذرّے ذرّے کا وجود نسبتِ محمدی کا مرہونِ منت ہے۔ نسبتِ محمدی کے چراغ روشن نہ ہوں تو قریۂ دیدہ و دل میں ستاروں کے اترنے کا عمل رک جاتا ہے اور روشنی کی کسی ایک کرن کا بھی نزول ممکن نہیں ہوتا۔ چراغِ آرزو اسی نسبت سے ضوفشاں رہتے ہیں۔ اسی نسبت سے تخیل کو پرِ پرواز عطا ہوتے ہیں۔ اِسی نسبت سے شہرِ قلم میں معانی کے دریچے کھلتے ہیں۔ اِسی نسبت سے خوشبوؤں کو عالمِ وجد میں آنے کا شعور ملتا ہے۔ صدائیں اِسی نسبت سے سماعتوں میں رس گھولتی ہیں اِسی نسبت سے زندگی کے تمام منطقوں میں چراغاں ہوتا ہے اور تمام خطّوں پر پھول برستے ہیں۔ اِسی نسبت سے رنگوں کو خوئے تکلم کی دلآویز خلعتوں سے نوازا جاتا ہے۔ اِسی نسبت سے درود پڑھتی ساعتیں زرفشانی کا منصبِ جلیلہ سنبھالتی ہیں۔ اِسی نسبت سے بادِ بہاری کو قدم قدم پر خوشبوئے چمن بکھیرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اِسی نسبت سے شاداب ساعتوں اور زرخیز موسموں کو چار دانگِ عالم میں سبزے کی چادر بچھانے کا حکم ہوتا ہے۔ اِسی نسبت سے کالی گھٹاؤں کو آبِ خنک سے لبریز چھاگلیں عطا ہوتی ہیں۔ اِسی نسبت سے تشنہ زمین سحابِ کرم کی رم جھموں میں بھیگتی رہتی ہے، برہنہ شاخوں پر سرخ گلاب کھلتے ہیں اور جگنوؤں کے قافلے نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ پاکی تلاش میں نکلتے ہیں، تتلیاں درود پڑھتی ہیں تو قصرِ نعت کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
نعت روحانی رتجگوں کے موسمِ لب کشا کا نام ہے۔ اذنِ لب کشائی توفیقِ خداوندی سے ملتا ہے۔ آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص کا اظہار پیکرِ شعری میں ہو تو نعت ہوتی ہے۔ اُمّی لقب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار و افکار کی چاندنی چٹکے تو نعت ہوتی ہے۔ بادِ صبا درود پڑھتے ہوئے کتابِ عشق کے اوراق الٹے تو نعت ہوتی ہے۔ نگاہیں طوافِ گنبدِ خضرا میں مصروف ہوں تو نعت ہوتی ہے، قلم وجد کے عالم میں رقص فرمائے تو نعت ہوتی ہے۔ کہکشاں مدینے کی گلیوں میں ستارے بچھائے تو نعت ہوتی ہے۔ چاند انگشتِ پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارے پر جھوم اٹھّے تو نعت ہوتی ہے امِ معبد کی آنکھیں مہمانِ عرش کی تجلیات میں گم ہوجائیں تو نعت ہوتی ہے، کلیاں ثنا کرتے ہوئے صحنِ چمن میں آنکھ کھولیں تو نعت ہوتی ہے، حلیمہ کائنات کے حسن کو اپنی آغوش میں لینے کی سعادت حاصل کرے تو نعت ہوتی ہے، راستوں کے پتھر رسولِ برحق کی رسالت کی گواہی دیں تو نعت ہوتی ہے، پگڈنڈیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کی قدمبوسی کا اعزاز حاصل کریں تو نعت ہوتی ہے۔ دشت و صحرا میں ابرِ کرم جھوم کر برسے تو نعت ہوتی ہے، درختوں کی ٹہنیاں جھک کر آداب بجا لائیں تو نعت ہوتی ہے۔ لفظ باوضو ہوکر نمازِ عشق ادا کریں تو نعت ہوتی ہے، لبِ تشنہ پر اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دھنک اترے تو نعت ہوتی ہے، مواجہۂِ اقدس میں آنسوؤں، ہچکیوں اور سسکیوں کی رم جھم میں سندِ غلامی عطا ہو تو نعت ہوتی ہے اور شہد کی مکھیاں اپنے چھتوں میں پھولوں کا رس منتقل کرتے ہوئے درودِ مصطفی کا ورد جاری رکھّیں تو نعت ہوتی ہے۔ جبرئیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں سے آنکھیں ملیں تو نعت ہوتی ہے۔ اویسِ قرنیؓ رسمِ محبت نبھائیں تو نعت ہوتی ہے، سدرہ میں آگے تنِ تنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ بندگی جاری رکھّیں تو نعت ہوتی ہے، جبلِ احد قدم بوسی کی سعادت پرجھوم جھوم اٹھّے تو نعت ہوتی ہے، حجرِ اسود بیت اللہ کی دیوار سے نکل کر لبِ اقدس پر بوسہ دے تو نعت ہوتی ہے۔ شہرِ طائف میں لبِ اقدس پر دعاؤں کے جھرمٹ ہاتھ اٹھائیں تو نعت ہوتی ہے، آمنہؓ کے لال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجلیات کا مینہ برسے تو نعت ہوتی ہے، خوشبو قصرِ غلامی کے دروازوں پر دستک دے تو نعت ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ سب نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیا پاشیاں ہیں اس لئے کہ کائنات کا وجود ہی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ پا کی عطا ہے۔
شعرائے نعت اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیر ہوتے ہیں۔ اس سفارت کاری پر دونوں جہان ہی نہیں کروڑوں جہان بھی ہوں تو قربان کئے جاسکتے ہیں، قصرِ اقتدار کی ساری توانائیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی پر نثار، کائنات کا ذرّہ ذرّہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی خیرات کا تمنائی ہے۔ نعت شائستگی، متانت اور سنجیدگی کا آخری معیار ہے۔ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے۔ شعراء ابہام اور ابلاغ کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایمائیت اور علامت نگاری کے محاسن قدم قدم پر شریکِ سفر رہتے ہیں۔ شاعر آرزو مند رہتا ہے کہ کائنات کا سارا حسن وجمال الفاظ کی چادر میں سمیٹ کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کردے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ کہکشاؤں کا سارا حسن دامنِ شعرمیں سجالیتا ہے، قلم ورق پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ کسی کو کائنات کے حسن وجمال کی تلاش ہو تو وہ نعت کی وادیٔ دلکشا میں اترنے کی سعادت حاصل کرے، قلبِ مضطر کی تشنہ زمین سحابِ کرم کی رم جھم میں بھیگ بھیگ جائے گی، نسبتِ محمدی کے چراغ روشن نہ ہوں تو قریۂ دیدہ و دل میں کسی ایک کرن کا بھی نزول ممکن نہیں ہوتا۔ آیئے ہم سر پر غلامی کا عمامہ باندھ کر انہی نسبتوں کی تلاش میں نکلیں۔
شہرِ اقبال ریاض ؔ حسین چودھری