دو حمدیہ: صبحِ نو کے سر پہ دستارِ گہر دیتا ہے وہ- کائنات محو درود ہے (2017)
صبحِ نو کے سر پہ دستارِ گہر دیتا ہے وہ
آسماں کی وسعتوں میں رہگذر دیتا ہے وہ
موسموں کی رتھ اُسی کے حکم کی پابند ہے
ہر برہنہ شاخ کو برگ و ثمر دیتا ہے وہ
وہ جو صنّاعِ ازل ہے وہ جو ہے روزی رساں
ہر کسی انسان کو دستِ ہنر دیتا ہے وہ
اُس کے دستر خوان کی وسعت کا اندازہ کرو
لب مقفل بھی رکھے کوئی مگر دیتا ہے وہ
تیشۂ فرہاد لے کر کوئی نکلے تو سہی
کھولتا ہے راستے، زادِ سفر دیتا ہے وہ
تا ابد خوشبو جلائے گی گلستاں میں چراغ
کب چمن زاروں کو عمرِ مختصر دیتا ہے وہ
وہ بلا تفریق دیتا ہے نمو کی روشنی
اپنے ہر منکر کو بھی آبِ گہر دیتا ہے وہ
منجمد جب ہونے لگتی ہے لہو کی آبجو
میرے اشکوں کو حرارت رات بھر دیتا ہے وہ
جب اندھیرے نوچ لیں مردہ ضمیروں کے کفن
مرسلِ آخرؐ کی آمد کی خبر دیتا ہے وہ
پہلے دیتا ہے گھٹاؤں کو سمندر کا خروش
پھر انہیں جلتے ہوئے برق و شرر دیتا ہے وہ
مَیں جو اک بزدل سا انساں ہوں سرِ مقتل ریاضؔ
میری شریانوں میں بھی خونِ جگر دیتا ہے وہ
٭٭٭٭
جو بھی بے گھر ہے اُسے طیبہ نگر دیتا ہے وہ
آنکھ پتھرائے تو اس کو اشکِ تر دیتا ہے وہ
وہ جو دیتا ہے شعور و آگہی کی کہکشاں
اہلِ دانش کو بہت گہری نظر دیتا ہے وہ
آسمانوں پر سجاتا ہے ستاروں کا ہجوم
گھُپ اندھیری رات میں پورا قمر دیتا ہے وہ
دھوپ میں ہر ہر قدم پر سائباں کھُلنے لگے
قافلے والوں کو صحرا میں شجر دیتا ہے وہ
وہ بنا دیتا ہے عبرت کا نشاں فرعون کو
منحرف چہروں کو ذلت کے کھنڈر دیتا ہے وہ
مالکِ کون و مکاں قہّار ہے جبّار ہے
اپنی ہر مخلوق کو مرنے کا ڈر دیتا ہے وہ
رونما ہوتے ہیں اُس کے معجزے شام و سحر
پتھروں کو اذنِ گویائی کا زر دیتا ہے وہ
مانگنا ہی ہے تو کیوں نہ مانگ لوں حُبِّ رسولؐ
ہر ثنا گو کو حروفِ معتبر دیتا ہے وہ
آخرِ شب رونے والی آنکھ ہے اُس کو پسند
آخرِ شب کی دعاؤں میں اثر دیتا ہے وہ
جس سے چھت بھی چھین لیتے ہیں جہاں والے ریاضؔ
سایۂ ا برِ کرم میں اُس کو گھر دیتا ہے وہ
کوئی اڑنے کی تمنا تو کرے جانِ ریاضؔ
اڑنے والوں کو ہمیشہ بال و پر دیتا ہے وہ