سہ نعتیہ: پھر قلم کو ہے تلاشِ مکتبِ عشقِ نبیؐ- کائنات محو درود ہے (2017)

پھر قلم کو ہے تلاشِ مکتبِ عشقِ نبیؐ
تختیوں پر خوب برسی ہے سخن کی روشنی

باندھ کر رکھّا ہوا ہے مَیں نے سامانِ سفر
ہجر کی شامِ غضب لگتی ہے مجھ کو آخری

پھر طلب سرکارؐ فرمائیں مجھے بارِ دگر
پھر ہو میرے سامنے شہرِ منّور کی گلی

پھر جوارِ گنبدِ خضرا میں ہو میرا قیام
جگمگا اٹھّے مرے افکار کی بارہ دری

تُو کبھی خلدِ قلم کے مرغزاروں سے گذر
ہر طرف مدحت کے پھولوں کی ملے گی دلکشی
خوش نصیبی نے قلم کے بار ہا بوسے لئے
عمر بھر چشمِ ادب اوراق پر پھیلی رہی

چشمِ تر جھکتی رہی پڑھتے ہوئے اُنؐ پر درود
گنبدِ خضرا کی جنت جب مقدر سے ملی

ہو مرے احوال پر چشمِ کرم، آقا حضورؐ
آپؐ کے قدموں کے صدقے میں ملی آسودگی

شہرِ طیبہ کے مکینوں سے ملو جانِ ریاضؔ
دلبری ہی دلبری ہے دلبری ہی دلبری

مَیں ہمیشہ ہی درِ اقدس پہ ہوتا ہوں ریاضؔ
آپؐ کے در پر برابر ہے ازل سے حاضری

٭٭٭

شاخ پر محوِ ثنا ہے برگِ نو کی خامشی
ہر کلی کے ہاتھ میں ہے پرچمِ اسمِ نبیؐ

حشر تک اب عدل کا سورج رہے گا زر فشاں
منہ چھپائے جا کے جنگل میں کہیں تیرہ شبی

ٹھنڈے پانی کے کٹورے پاس ہی رکھّے صبا
ہے عزیز از جان و تن مجھ کو لبوں کی تشنگی

گنبدِ خضرا کا عکسِ دلرُبا آنکھوں میں تھا
جب لحد میں ہر کتاب روز و شب کھولی گئی

اے خدا! اِس کو ملیں اُنؐ کی غلامی کے چراغ
حکمرانی کی ہوس میں مبتلا ہے آدمی

صبحِ طیبہ کے اجالوں میں پگھل جاتی ہیں یہ
قصرِ شب کی ساری دیواریں بنی ہیں عارضی

کشتیٔ عمرِ رواں طوفاں کی زد میں ہے، حضورؐ
سب جزیروں کے سواحل پر بجھی ہے روشنی

اس جہاں میں جسم و جاں کے خاک ہو جانے کے بعد
آرزو خاکِ بدن میں آپؐ کی زندہ رہی

کرب کے عالم میں ہوں، ہر وقت ڈستی ہے مجھے
عمر کے اس آخری حصّے میں میری مفلسی

اُنؐ کے ہر نقشِ قدم کا فیض جاری ہے ریاضؔ
ہر برہنہ سر پہ علم و فن کی ہے چادر تنی

میز پر ہے رتجگا نعتِ پیمبرؐ کا ریاضؔ
رقص کرتی ہے مرے آنگن میں شب بھر چاندنی

٭٭٭

اس لئے لیتا ہوں شب بھر مَیں بلائیں آنکھ کی
اس کے ہر اک خواب کی تعبیر ہے اُنؐ کی گلی

آپؐ کا نقشِ قدم جھومر ہے سب ادوار کا
ہر زمانے کے افق پر روشنی ہے آپؐ کی

دور رہتی ہے مرے کمرے سے شامِ ابتلا
ہے عرب کی چاند راتوں سے مری بھی دوستی

وادیٔ بطحا سے اٹھّیں امنِ عالم کے سحاب
ذہنِ انسانی سے پھر لپٹی ہوئی ہے سرکشی

آپؐ کے عزمِ مسلسل کو کروڑوں ہوں سلام
ہر قدم پر کفر کی اک آ ہنی دیوار تھی

کیف میں ڈوبی ہوئی ہے میرے آنگن کی فضا
میری بستی میں ہوائے لطف ہے چلتی رہی

در بدر کی ٹھوکریں اس کا مقدر ہیں، حضورؐ
آ پڑی ہے آپؐ کی امت پہ کیا افتاد سی

کن حصاروں میں مقیّد ہیں قبیلے کے جواں
ٹوٹ جائے یا محمدؐ ہر طلسمِ سامری

اڑتی رہتی ہے ہوا کے دوش پر آقا حضورؐ
خشک پتوں کی طرح خاکِ بدن بکھری ہوئی

روزِ محشر نام لے لے کر غلاموں کا ریاضؔ
ڈھونڈتی پھرتی ہیں ہر سو رحمتیں سرکارؐ کی

وقت کے ماتھے پہ یہ تحریر کر دیجے ریاضؔ
حرفِ آخر ہیں کتابِ زندگی کا آپؐ ہی