زیبِ لب، زیبِ ورق، زیبِ قلم، زیبِ زباں- کائنات محو درود ہے (2017)
زیبِ لب، زیبِ ورق، زیبِ قلم، زیبِ زباں
آپؐ کا اسمِ گرامی ہے، امیرِ مرسلاںؐ
فضلِ ربیّ کا ہے جاری آسمانوں سے نزول
شہرِ مدحت میں ہوائیں ہیں مسلسل زر فشاں
خوشبوؤں کے ہاتھ پر رکھتے رہیں کرنوں کے پھول
شاخِ رحمت پر بنے اہلِ قلم کا آشیاں
آپؐ کے لطف و عطا کی کوئی حد ہو تو کہوں
آپؐ کی رحمت کا ہے گہرا سمندر بیکراں
ساتھ اپنے لے کے آیا ہوں مَیں اشکوں کا ہجوم
اپنے لمحوں پر مجھے ہوتا ہے صدیوں کا گماں
آپؐ کے نقشِ کفِ پا کا لکھوں سہرا، حضورؐ
کیا مری کلکِ ادب اور کیا مرے نطق و بیاں
آپؐ کی امت کی رودادِ الم لکھتا رہوں
میرے لب پر روشنی بن کر کھِلے حرفِ اذاں
امنِ عالم کے لئے ہم کس طرف دیکھیں، حضورؐ
عافیت کی کشتیوں کے کب کھُلیں گے بادباں
ابنِ آدم چِلچلاتی دھوپ میں جائے کدھر؟
اس کے سر پر ہو مدینے کی گھٹا کا سائباں
خونِ ناحق ہے شفق کی سرخیوں میں موجزن
ہے افق پر لب کشا شامِ غریباں کا دھواں
گُم ہوئے ہیں ہم غبارِ خوف میں، آقا حضورؐ
کھو گیا تاریخ کے مقتل میں اپنا کارواں
تازہ دم رہتی ہے ہر موسم میں اے جانِ ریاضؔ
کلکِ مدحت کو خدا نے دی ہے عمرِ جاوداں
شام ہوتے ہی چراغِ نعت جل اٹھّے ریاضؔ
کہکشاں در کہکشاں در کہکشاں در کہکشاں