حُبِّ سرکارؐ مدینہ میں قلم سرشار ہو- کائنات محو درود ہے (2017)
حُبِّ سرکارِؐ مدینہ میں قلم سرشار ہو
شہرِ مدحت میں ہمیشہ گرمیٔ بازار ہو
با وضو ہو کر جسے پڑھتا ہوں مَیں شام و سحر
روزِ محشر ہاتھ میں طیبہ کا وہ اخبار ہو
دست بستہ ہے بصارت، دست بستہ روشنی
آپؐ کا بے حد کرم، دیدار ہو دیدار ہو
امتِ مظلوم کے سر پر مرے، ربِّ عظیم!
حشر کے دن بھی غلامی کی یہی دستار ہو
روشنی کے ظاہر و باطن میں یہ تحریر ہے
ظلمتِ شب سے مسلماں بر سرِ پیکار ہو
عدل کی میزان کے پلڑوں میں ہیں آنکھیں، حضورؐ
حضرتِ فاروقِ اعظمؓ سا کوئی کردار ہو
ہر ہتھیلی پر اگے خورشیدِ علم و فن حضورؐ
ہر برہنہ سر پہ آقاؐ خلعتِ انوار ہو
میری ہر اک سانس ٹھہرے آپؐ کے در کی کنیز
کاسۂ عمرِ رواں میں آپؐ کا دینار ہو
ایک اک لمحہ ہے میری عمر کا میرے خلاف
خامیوں، کوتاہیوں سے کیا بھلا انکار ہو
کاش ایسا بھی کبھی ہو سیدیؐ یا مرشدیؐ
جب نظر اٹھّے مدینے میں مرا گھر بار ہو
آنکھ جب کھولیں مری نسلیں تو ان کے جسم پر
علم کی پوشاک ہو اور علم کی دستار ہو
تشنہ ہونٹوں کی گذارش ہے خدائے پاک سے
آبِ عشقِ مصطفیؐ سے آج بھی اِفطار ہو
آخری خواہش ہے میری رحمتِ کون و مکاںؐ
آپؐ کا دربان ہوں اور آپؐ کا دربار ہو
علم، تقویٰ اور دانائی کا چشمہ ہو رواں
مجلسوں میں میرِ مجلس صاحبِ افکار ہو
فیصلے شفاف ہوں ارضِ وطن کے یا خدا!
سازشی ٹولے کی ہر سازش پسِ دیوار ہو
ہو عرب کی ریت میرے آئنوں کی آبرو
صرف طیبہ کا شہنشہؐ قافلہ سالار ہو
زندگی انمول لمحوں کی کہانی ہے ریاضؔ
یہ فقط وقفِ ثنائے احمدِ مختارؐ ہو
سامنے دیوار پر سورج نے لکھّا ہے ریاضؔ
امتِ سرکارؐ گہری نیند سے بیدار ہو
جشنِ میلاد پیمبرؐ کے حوالے سے ریاضؔ
زندگی کا ایک اک دن عید کا تہوار ہو