کاسۂ عمرِ رواں میں نعت کی دولت ملی- کائنات محو درود ہے (2017)
کاسۂ عمرِ رواں میں نعت کی دولت ملی
آپؐ کے قدموں میں آنے سے مجھے عزت ملی
جب طلب سے بھی زیادہ بارشِ رحمت ہوئی
آئنوں کے سامنے کچھ اور بھی حیرت ملی
کیا یہ کم ہے فضلِ ربیّ مفلس و نادار پر
اَطلس و کمخواب میں لپٹی ہوئی خلعت ملی
دودھ کی نہریں رواں تھیں حیطۂ ادراک میں
ہر قدم پر خلدِ طیبہ میں نئی جنت ملی
مانگتا رہتا ہے آقاؐ سے قلم حسنِ کلام
اس لئے میرے زرِ افکار کو ندرت ملی
اس سے بڑھ کر ہو خدائے مصطفیؐ کا کیا کرم
سجدہ ریزی کی مدینے میں مجھے مہلت ملی
آپؐ کے لطف و کرم کی کوئی حد ہو تو کہوں
جاں نثاروں کو ہمیشہ عظمت و رفعت ملی
لب درودوں کے خنک زم زم میں تھے ڈوبے ہوئے
جھومتی گاتی ہوئی طیبہ میں ہر حسرت ملی
شکر واجب ہے خدائے آسمانِ علم کا
اپنے آقاؐ سے غلامی کی مجھے نسبت ملی
ہر بیاضِ نعت کے ہر ہر ورق کو چوم لوں
چاند راتوں میں مسلسل ہے شبِ مدحت ملی
ہر گھڑی خلدِ مدینہ کے تصّور میں رہے
کیا مقدّر ہے ہمارا کیا ہمیں قسمت ملی
مکتبِ عشق و وفا میں مستقل رہتا ہوں مَیں
نعت گوئی سے کبھی مجھ کو نہیں رخصت ملی
چشمِ تر اپنی ہتھیلی پر سجا لوں گا ریاضؔ
روزِ محشر چند لمحوں کی بھی گر فرصت ملی
مَیں تو اک گمنام شاعر ہوں محلّے میں ریاضؔ
جو ملی اُنؐ کے وسیلے سے مجھے شہرت ملی
ان گنت کڑیاں ہیں زنجیرِ غلامی کی ریاضؔ
ہر بیاضِ نعت کی سرکارؐ سے قیمت ملی