چراغِ مدحتِ آقاؐ مری آنکھوں میں روشن ہیں- کائنات محو درود ہے (2017)
چراغِ مدحتِ آقاؐ مری آنکھوں میں روشن ہے
مدینے کا سویرا ہے، مدینے ہی کا چانن ہے
بڑھاپا جس کے ہاتھوں میں ہے لاٹھی شہرِ طیبہ کی
محبت کی ردا اوڑھے ہوئے وہ میرا بچپن ہے
ستارے جھڑتے رہتے ہیں ورق کی راجدھانی میں
مری کلکِ ثنا روزِ ازل ہی سے سہاگن ہے
شرف اُنؐ کی غلامی کا ازل سے ہے مجھے حاصل
مرا بندھن، سرِ محشر بڑا مضبوط بندھن ہے
مؤدب اک پرندہ ہوں فضائے خلدِ طیبہ کا
مدینے کے درختوں پر مرا دائم نشیمن ہے
نقوشِ پائے سردارِ دو عالمؐ کی عطائیں ہیں
مرا ہر لفظ خوشبو ہے، دھنک ہے اور درپن ہے
مدینے کی تڑپ نے آج تک زندہ رکھا مجھ کو
حروفِ آرزو میں یا نبیؐ اک ایک دھڑکن ہے
سمندر کے کنارے پر بھی پیاسا ہے جہاں سارا
مداوا تشنگی کا آپؐ کے قدموں کا دھوون ہے
مَیں ہر لمحہ کرم کے پانیوں میں بھیگا رہتا ہوں
محیطِ جسم و جاں سرکارؐ کا ساون ہی ساون ہے
تخیل کے پرندوں کو ملی ہیں مشعلیں لاکھوں
منور چاند راتوں سے ثنا گوئی کا دامن ہے
مری ہر سانس ہے نیلام گھر کے قید خانے میں
مرے ہر کھیت پر آقاؐ، ابھی قابض مہاجن ہے
ریاضؔ اُنؐ کی عنایت نے غنی ہے کر دیا مجھ کو
بیاضِ نعت دینارِ ثنا کا ایک مخزن ہے