آقا حضورؐ، آج بھی تنہا بہت ہوں مَیں- کائنات محو درود ہے (2017)
آقا حضورؐ، آج بھی تنہا بہت ہوں مَیں
اپنے بدن کی خاک پہ بکھرا بہت ہوں مَیں
پتھر کے آدمی کی بھی آنکھیں چھلک پڑیں
اِمشب درِ حضورؐ پہ رویا بہت ہوں مَیں
گرہیں تمام کھول دے میرا خدا، حضورؐ
غم ہائے روزگار سے الجھا بہت ہوں مَیں
رکھّا ہوا ہے آپؐ نے میرا بھرم، حضورؐ
ورنہ گلی میں شخص نکمّا بہت ہوں مَیں
نکلوں تلاشِ عظمتِ ماضی میں یا نبیؐ
غفلت کی نیند دن میں بھی سویا بہت ہوں مَیں
آقا حضورؐ، آپؐ سے شرمندہ ہوں کہ شب
اشکِ رواں کے سیل میں بھیگا بہت ہوں مَیں
سانسوں میں اضطراب کے جلتے رہے چراغ
قرب و جوارِ قلب میں دھڑکا بہت ہوں مَیں
کیجئے عطا حضورؐ مجھے روشنی کے پھول
اپنے بدن کے غار میں اترا بہت ہوں مَیں
اب کے برس طلب وہؐ کریں گے مجھے ضرور
ہجرِ نبیؐ میں ہر گھڑی تڑپا بہت ہوں مَیں
آتی ہے راس عجز کی آب و ہوا مجھے
جھوٹی انا کے جبر سے ڈرتا بہت ہوں مَیں
یارب! ہوائے شہرِ نبیؐ، ہمسفر رہے
ہر رہگذارِ شوق پہ بھاگا بہت ہوں مَیں
مجھ پر نوازشات کی بارش ہوئی ریاضؔ
جب بھی کہا حضورؐ پیاسا بہت ہوں مَیں