ہم غلاموں کے دامانِ صد چاک کو، اپنی رحمت کے پھولوں سے بھردیجئے- کائنات محو درود ہے (2017)

ہم غلاموں کے دامانِ صد چاک کو، اپنی رحمت کے پھولوں سے بھر دیجئے
خوشبوؤں کا سفر رک گیا ہے شہاؐ! دستِ بادِ صبا میں ثمر دیجئے

بپھری موجوں میں کوئی جزیرہ نہیں، روشنی ساحلوں کی ہوئی گم کہیں
ڈوبتی کشتیوں کے محافظ بنیں، ایسے گرداب ایسے بھنور دیجئے

مَیں ثنا کی کتابوں میں کھلتا رہوں، آنسوؤں کے سمندر میں ملتا رہوں
میری کلکِ ثنا کو مرے مصطفیؐ، لب کشا لفظ اور چشمِ تر دیجئے

اس کی کشتِ نظر میں ستارے نہیں، پاس بچوّں کے رنگیں غبارے نہیں
آپؐ کے در پہ کب سے کھڑا ہے کوئی، یانبیؐ بے ہنر کو ہنر دیجئے

کھوچکا ہوں مَیں پہچان کے مرحلے، ہر طرف بے نوائی کے ہیں سلسلے
گمرہی کے ہوں جنگل میں بھٹکا ہوا، مجھ کو آثارِ طیبہ نگر دیجئے

شام سفّاک لمحات کی ہمسفر، ہر قدم پر ہے کانٹوں بھری رہگذر
آسمانِ کرم کی خنک روشنی، بے سہاروں کو شام و سحر دیجئے

قصرِ شاہی کے در سب مقفل ہوئے، عدل کے فیصلے اب معطل ہوئے
ہاتھ خالی ہیں اہلِ دعا کے ابھی، ان کو جود و سخا کے گہر دیجئے

ہم کہ تہذیبِ نو کے اندھیروں میں ہیں اور بے نور سے کن سویروں میں ہیں
جن پہ نقشِ قدم آپؐ کے ثبت ہیں، کہکشاؤں کی وہ رہگذر دیجئے

ظلمتِ شب کی چادر میں چہرے چھُپے، دامنِ آرزو کے ستارے بجھے
جستجو کے دیے دل میں روشن رہیں، عشق کے ایسے برق و شرر دیجئے

عمر کے آخری دن ہیں یامصطفیؐ، التجا التجا التجا التجا
اپنے شاعر کو در پہ طلب کیجئے، سرخوشی اس کو بار دگر دیجئے

مَیں ازل سے بھکاری مدینے کا ہوں، اک مسافر ادب کے سفینے کا ہوں
گنبدِ سبز آنکھوں میں بھیگا رہے، ایک چھوٹا سا طیبہ میں گھر دیجئے

دھوپ کی زرد چادر ہے ہر سو بچھی، لب ہیں سوکھے ہوئے یانبیؐ یانبیؐ
جن کی چھاؤں گھنی ہو رہِ شوق میں، یامحمدؐ، وہ ہم کو شجر دیجئے

سیدیؐ مرشدیؐ یانبیؐ یانبیؐ، التجائے مسافر ہے در پر پڑی
میرا سب کچھ مدینے کی گلیوں میں ہے، مجھ کو سرکارؐ اذنِ سفر دیجئے

چومتی ہی رہے بابِ جبریل کو، جھومتی ہی رہے وادیٔ عشق میں
خاکِ در سے لپٹ کر مچلتی رہے، یانبیؐ مجھ کو ایسی نظر دیجئے

ملتجی ہے ریاضِؔ قلم مرشدیؐ، ماہتابِ سخن کی ملے دلکشی
میرے اسلوبِ نو کو سند ہو عطا، ہر نئی سوچ کو بال و پر دیجئے