جو کچھ بھی ہے وہ تیریؐ ہے نسبتِ ادب میں- خلد سخن (2009)
جو کچھ بھی ہے وہ تیریؐ ہے نسبتِ ادب میں
رکھا ہی کیا ہے ورنہ کچھ نام میں نسب میں
بن مانگے مل گیا ہے ترے آستاں سے اتنا
اِک آرزو نہیں ہے اب دامنِ طلب میں
سگِ در کہے زمانہ کہ فقیرِ آستانہ
اعزازِ کیفِ پیہم پاتا ہوں ہر لقب میں
کرنوں کے پھول میرے لفظوں سے جھڑ رہے ہیں
روشن ہے شمعِ مدحت کاشانہء ادب میں
سرکارِ دوجہاںؐ کی آمد پہ خوش ہوا تھا
اتنی سی روشنی ہے دامانِ بولہب میں
یلغارِ شامِ غم میں جاؤں کدھر میں ہمدم
انگلی پکڑ کے لے چل اُس شہرِ منتخب میں
اُنؐ کے نقوشِ پا کے سورج تلاش کیجئے
آثارِ صبحِ نو ہیں دستِ غبارِ شب میں
تشنہ لبی ہے آقاؐ اُمت کا کیا مقدر
بے سائباں زمیں ہے اس عہدِ جاں بلب میں
دار الشفائے طیبہ ہے مرکزِ دل و جاں
دنیا کھڑی ہے آخر سرکارؐ کے مطب میں
آقاؐ، عمرؓ مجھے بھی آواز دیں کہیں سے
یاں، گھات میں کھڑا ہے دشمن مرے عقب میں