مَیں کہ مہمان ہوں آپؐ کا یانبیؐ، میرے سر پر کرم کا کھُلے سائباں- کائنات محو درود ہے (2017)
مَیں کہ مہمان ہوں آپؐ کا یانبیؐ، میرے سر پر کرم کا کھُلے
سائباں
دست و دامن تہی، گھر میں کچھ بھی نہیں، میری جھولی میں بھردیں زرِ دو جہاں
ترجمانِؐ ازل، مہربانِؐ ابد، آرزوئےؐ عرب، آبروئےؐ عجم
میری کشتِ ادب کب سے ویران ہے، ا برِ رحمت میں بھیگے لبِ تشنگاں
لفظ خاموش ہیں، چُپ ہیں لوح و قلم، بے صدا ہوگئی ہے مری
ہر صدا
خشک موسم کی زد میں ہیں آنکھیں مری کیا کہیں سیدیؐ میرے اشکِ رواں
ارضِ کشمیر جس کے مَقفَّل ہیں لب، جس پہ چھائی ہوئی ہے غلامی
کی شب
ہتھکڑی اس کے ہاتھوں کی ٹوٹے کبھی، نسلِ آدم کے اے قائدِ ہر زماں
ذرّہ ذرّہ فلسطیں کا ہے کربلا، رقص کرتے چلی آ رہی ہے قضا
عافیت کی ضمانت فقط آپؐ ہیں، آپؐ ہی امنِ عالم کے ہیں پاسباں
خوشبوئیں رقص آنگن میں کرتی رہیں، اپنے دامن کو پھولوں سے
بھرتی رہیں
نام آقاؐ کا لکھّا نہیں ہے ابھی، ہر ورق پر اتر آئی ہے کہکشاں
اس کے بازو نہیں، اس کی آنکھیں نہیں، اس کا دل ہے خراشوں میں لپٹا ہوا
قوم سنتی نہیں، کیا کرے گی عمل، باوجود اس کے دیتا رہوں گا اذاں
امن کی فاختہ پھر سے زخمی ہوئی، دستِ قاضی سے لکھّا گیا
فیصلہ
آپؐ کے در پہ آئی ہے روتے ہوئے، یانبیؐ آپؐ کی امتِ ناتواں
ذرّہ ذرّہ ہے مانندِ ارض و سما، لمحہ لمحہ ہے طیبہ کا حرفِ
دعا
سارے شہروں کا سرتاج طیبہ نگر، مرکزِ نور ہے آپؐ کا آستاں
آسماں سے فرشتے اترتے رہیں، قافلے چاندنی کے گذرتے رہیں
چوم لے خاکِ طیبہ کو میرا قلم، چوم لے اُنؐ کی دہلیز کو آسماں
ایک بھی لفظ میرا نہیں یانبیؐ، آپؐ کا ہے کرم، آپؐ کی ہے
عطا
یہ قلم آپؐ کا یہ لُغت آپؐ کی، یہ سخن آپؐ کا مرسلِؐ مرسلاں!
میرے پیارے وطن کی خبر لیجئے، اس کے دامن کو خوشیوں سے بھر
دیجئے
اپنے بارے میں یہ عرض کرتا چلوں، ذکر کے کب ہے قابل مری داستاں
اے صباً جا کے کہنا ریاضؔ آپؐ کا، نعت لکھنے میں مصروف تھا
یا نبیؐ
ہر طرف بام و در پر تھا پھیلا ہوا، آنسوؤں، ہچکیوں، سسکیوں کا دھواں