ذکرِ اطہر آپؐ کا ہے رونقِ شہرِ قلم- کائنات محو درود ہے (2017)
ذکرِ اطہر آپؐ کا ہے رونقِ شہرِ قلم
خوب برسا ہے ورق پر علم کا ا برِ کرم
آنسوؤں میں بھیگ جائیں گے حروفِ آرزو
ہر ہتھیلی پر مدینے کا سفر ہو گا رقم
کب تلک رسوائیوں کی آگ میں جلتے رہیں
لوٹ آئے اپنے ماضی کا وہی جاہ و حشم
وادیٔ تشکیک میں ہے نسلِ آدم کا شعور
کس غبارِ شامِ حیرت میں پڑے رہتے ہیں ہم
ڈھونڈتا رہتا ہوں دامانِ کرم کی چاندنی
کون رکھتا ہے غریبِ شہر کا، آقاؐ بھرم
کب سے آوارہ بھٹکتی پھر رہی ہے یا خدا!
امتِ سرکش کو دے سرکارؐ کے نقشِ قدم
یا نبیؐ، چھوٹے ممالک کو ردائے عافیت
کیا تعاقب میں رہے گا حشر تک ملکِ عدم
ان گنت زندہ مسائل میں گھِرا رہتا ہوں مَیں
خشک ہو جائے گا رو رو کر مری آنکھوں کا نم
عدل کا پرچم کھُلے ہر قصرِ شاہی میں ریاضؔ
روشنی کو راستہ دیتا رہے بابِ عجم