مدینے کی طرف ہجرت کا ارماں ہی کیا ہوتا- کائنات محو درود ہے (2017)
مدینے کی طرف ہجرت کا ارماں ہی کیا ہوتا
حیاتِ مختصر کو تُو نے آساں ہی کیا ہوتا
اِسے وابستہ کرکے خلدِ طیبہ کی ہواؤں سے
کبھی اندر کے انساں کو مسلماں ہی کیا ہوتا
مدینہ لکھ کے اوراقِ دل و جاں پر محبت سے
قلم اور ہاتھ کو خوشبو بداماں ہی کیا ہوتا
بہارِ خلدِ طیبہ سے گلوں کی تازگی لے کر
بدن کی خاک کو رشکِ گلستاں ہی کیا ہوتا
عمامہ ایک اک لمحے کے سر پر باندھ کر ہم نے
دل و جاں کو محبت کا دبستاں ہی کیا ہوتا
رہے طالب کہ پیراہن ملے کمخواب کا ہم کو
سخن کو مسلکِ شامِ غریباں ہی کیا ہوتا
ہوس کے کارخانے کے دھوئیں سے کیا ملا تجھ کو
نجاتِ اخروی کا تُو نے ساماں ہی کیا ہوتا
یقینا حشر کا سورج کہے گا اہلِ محشر سے
زمانے میں کوئی کارِ نمایاں ہی کیا ہوتا
اِدھر سے جب مدینے کے مسافر کو گذرنا تھا
ریاضؔ اشکوں سے بستی میں چراغاں ہی کیا ہوتا