دارا میں گم رہوں نہ سکندر میں گم رہوں- کائنات محو درود ہے (2017)
دارا میں گم رہوں نہ سکندر میں گم رہوں
آقاؐ کے جاں نثاروں کے لشکر میں گم رہوں
بُرجِ فصیلِ عشقِ پیمبرؐ میں گم رہوں
نقش و نگارِ شہرِ مصَّور میں گم رہوں
غربت کی شام کے مہ و اختر میں گم رہوں
آقا حضورؐ، فکرِ ابوذرؓ میں گم رہوں
خوش بخت ہوں مَیں اپنے مقدر میں گم رہوں
نطق و بیانِ کلکِ سخنور میں گم رہوں
کلکِ ثنا کے حسنِ معطر میں گم رہوں
طیبہ نگر میں حرفِ گداگر میں گم رہوں
مَیں بھی کبوتروں سے ادب سیکھ کر، حضورؐ
قرب و جوارِ گنبدِ اخضر میں گم رہوں
روضے کی جالیوں کو نگہ چومتی رہے
مَیں صبح و شام ایک ہی منظر میں گم رہوں
بیٹھا رہوں حضوؐر کی چوکھٹ پہ رات دن
حسن و جمالِ روضۂ اطہر میں گم رہوں
خورشیدِ حشر ہو سوا نیزے پہ اور مَیں
خلدِ نبیؐ کے سرو و صنوبر میں گم رہوں
لفظوں میں اشکِ تر کے نگینے بکھیر کر
نعتِ نبیؐ کے حرفِ مکرّر میں گم رہوں
جی چاہتا ہے شہرِ منّور میں عمر بھر
غارِ حرا کے ایک اک پتھر میں گم رہوں
کھو جاؤں جان بوجھ کے شہرِ حضورؐ میں
طیبہ کی شام کے رخِ انور میں گم رہوں
ہوتی رہے ہوائے مدینہ سے گفتگو
شہرِ نبیؐ کی خاکِ منّور میں گم رہوں
یارب! وفورِ نعت کسی طور ہو نہ کم
مَیں مدحتِ حضورؐ کے دفتر میں گم رہوں
کرتا رہوں تلاشِ نقوشِ قدم ریاضؔ
اُنؐ کے کرم کے گہرے سمندر میں گم رہوں