مدحتِ خیرالبشرؐ کی بزم آرائی میں ہوں- کائنات محو درود ہے (2017)
مدحتِ خیرالبشرؐ کی بزم آرائی میں ہوں
مَیں ازل سے معتکف پھولوں کی رعنائی میں ہوں
نعت کے کتنے جزیروں میں رہا میرا قیام
اک سمندر ہوں مَیں خود اپنی ہی گہرائی میں ہوں
آج کے اخبار میں ہیں نعتِ نو کی دھڑکنیں
اس لئے، اے بے خبر! دستِ تمنائی میں ہوں
مکتبِ عشقِ نبیؐ ہے علم و حکمت کا عروج
ان دنوں قسمت سے مَیں بھی شہرِ دانائی میں ہوں
مَیں اذاں دیتا رہوں گا معبدِ اصنام میں
جو تلاشِ حق میں ہیں مَیں اُن کی بینائی میں ہوں
ڈھونڈتا رہتا ہوں مَیں نقشِ کفِ پائے حضورؐ
دامنِ افلاک کی اک ایک پہنائی میں ہوں
ساتھ ہوتے ہیں مرے یادِ مدینہ کے چراغ
مَیں اکیلا کب عجم کی شامِ تنہائی میں ہوں
ایک ہی خوشبو مشامِ جاں کو رہتی ہے عزیز
نعت گوئی کے چمن زاروں کی یکتائی میں ہوں
احترامِ آدمی پہلا سبق ہے آپؐ کا
مَیں بھی شامل ہر کسی کی عزت افزائی میں ہوں
مَیں کہ تلچھٹ تھا جسے خاطر میں لاتا کیا کوئی
اُنؐ کی نسبت سے مگر حرفِ پذیرائی میں ہوں
نعت کا مقطع مکرّر پڑھ رہا ہوں شاعرو!
حشر کے میداں میں مَیں ذوقِ تماشائی میں ہوں
اور کیا میرا تعارف ہو گا اے بادِ نسیم!
مَیں گدایانِ پیمبرؐ کی شناسائی میں ہوں
ہر ورق پر پھول بن جاتی ہے آنکھوں کی نمی
عشق کے جذبات کی ہر جلوہ فرمائی میں ہوں
شاخِ جاں پر مسکرا اٹھّے شفا یابی کے پھول
مَیں طبیبِ شہرِ طیبہ کی مسیحائی میں ہوں
منزلیں نزدیک آتی ہی نہیں آقا حضورؐ
دیں تحفظ کی ردا، لشکر کی پسپائی میں ہوں
کیا مدینے کی مسافت بھی مسافت ہے ریاضؔ
خوش نصیبی سے گدازِ آبلہ پائی میں ہوں
مصر کے بازار میں جائے بلا میری ریاضؔ
فضلِ ربیّ سے مَیں اُنؐ کے شہرِ آبائی میں ہوں