شاخِ ثنا کی ریشمی کلیوں میں گم ہوں مَیں- کائنات محو درود ہے (2017)
شاخِ ثنا کی ریشمی کلیوں میں گم ہوں مَیں
بادِ خنک کے سرمدی جھونکوں میں گم ہوں مَیں
آنکھیں مری نماز تہجد ادا کریں
قصرِ دعائے شب کے مصلّوں میں گم ہوں مَیں
ہر سوچ میری آلِ پیمبرؐ کی ہے کنیز
توصیفِ مصطفیؐ کے چراغوں میں گم ہوں مَیں
مجھ کو دکھا حضورؐ کے روضے کا راستہ
ارض و سما کی بھول بھلیّوں میں گم ہوں مَیں
جھک کر گلاب چومتے ہیں لفظ لفظ کو
کلکِ ادب کی جھولتی بانہوں میں گم ہوں مَیں
شام و سحر درود جو پڑھتے ہیں آپؐ پر
شہرِ نبیؐ کے پھول سے چہروں میں گم ہوں مَیں
شاداب موسموں کی ملی ہیں سفارتیں
عمرِ رواں کے بھیگتے برسوں میں گم ہوں مَیں
لایا ہوں چشمِ تر کے مَیں لاکھوں گہر، حضورؐ
ہر حرفِ التجا کے دریچوں میں گم ہوں مَیں
بکھرا ہوا ہوں آئنہ خانوں میں، یا نبیؐ
لمحاتِ غم کے خستہ فریموں میں گم ہوں مَیں
دریائے جاں میں میری غلامی ہے موجزن
جود و کرم کی نرم خُو موجوں میں گم ہوں مَیں
آواز مجھ کو دینے کا کچھ فائدہ نہیں
سرکارؐ کے کرم کے حوالوں میں گم ہوں مَیں
اشکوں سے سن رہا ہوں کہانی قیام کی
طیبہ نگر کے چاند سے لمحوں میں گم ہوں میں
گلیوں میں کہکشاؤں کا رہتا تھا جمگھٹا
اُس شہرِ دلنواز کی یادوں میں گم ہوں مَیں
ہر ہر قدم پہ وجد کے عالم میں ہے قلم
روضے کی سمت پھول سے رستوں میں گم ہوں مَیں
رہتا ہوں مَیں حضورؐ کے قدمین میں ریاضؔ
خوش بختیوں کی سبز بہاروں میں گم ہوں مَیں