میرے کشکولِ تمنا میں گریں لاکھوں گہر- کائنات محو درود ہے (2017)
میرے کشکولِ تمنا میں گریں لاکھوں گہر
دکھ کی چادر اوڑھ کے آیا ہوں یا خیرالبشرؐ
سسکیوں میں ڈوب جاتے ہیں حروفِ التجا
آنسوؤں میں بھیگ جاتی ہے دعائے بے اثر
دو قدم چلنا بھی مشکل ہے مرے آقا حضورؐ
میری قسمت میں خدا لکھّے مدینے کا سفر
بحرِ سرکش میں ہے آقاؐ کشتیٔ عمرِ رواں
کسپمرسی کے ہے عالم میں حیاتِ مختصر
سانس بھی مشکل سے لیتا ہوں رسولِ محتشمؐ!
ہچکیوں کی نذر ہوجاتے ہیں اب شام و سحر
اک اندھیرا ہی اندھیرا گھر کے ہر کمرے میں ہے
لوٹ آئی ہے زمانے بھر کی تاریکی اِدھر
لفظ سب محرومیوں کا ہیں کفن پہنے ہوئے
دکھ کے لمحوں کا نشیمن ہے قلم کی رہگذر
گھیر رکھّا ہے مجھے زندہ مسائل نے حضورؐ
بے ہنر سا بے ہنر ہوں، بے ہنر سا بے ہنر
ہر قدم پر کس اذّیت کی چٹانیں ہیں کھڑی
راستے مسدود ہیں یا سیّدیؐ جاؤں کدھر؟
ایک جنگل ہے مصائب کا مرے چاروں طرف
راستے میں چھوڑ کر سب جا چکے ہیں ہمسفر
اشک رکھتے ہیں کتابوں کے جلے اوراق میں
میرے بچّوں کو ملے شاداب موسم کی خبر
یا نبیؐ یا مصطفیؐ یا سیّدیؐ یا مرشدیؐ
کوئی آسودہ سا لمحہ، کوئی حرفِ معتبر
حاضری کا اذن دیں اپنے غلاموں کو حضورؐ
رہگذارِ عشق کو چومے سخن بارِ دگر
میں فضائے وادیٔ بطحا میں بس اڑتا رہوں
میری سوچوں کے پرندوں کو عطا ہوں بال و پر
آپؐ سے رشتہ غلامی کا نہ ہو تو یا نبیؐ!
ہوں ریاضِؔ خستہ جاں کے روز و شب کیسے بسر