آپؐ کی دہلیز کو چومے بنا اڑتی نہیں- کائنات محو درود ہے (2017)
آپؐ کی دہلیز کو چومے بنا اڑتی نہیں
فکرِ نو کی ایک بھی تتلی سبق بھولی نہیں
عجز کی آب و ہوا میں سانس لیتا ہے قلم
فصل کھیتوں میں رعونت کی اِدھر اگتی نہیں
دھڑکنوں نے کب نہیں رکھے گذر گہ میں چراغ
شہرِ انوار و کرم میں آنکھ کب برسی نہیں
عافیت ہی عافیت ہے کوچہ و بازار میں
خلدِ طیبہ میں ہوائے رنج و غم چلتی نہیں
پھول ہی رکھتی ہے اوراقِ چمن کے درمیاں
کلکِ مدحت شور و شر کی داستاں لکھتی نہیں
اشک بہتے ہیں مسلسل آپؐ کی دہلیز پر
التجائے دیدۂ پرنم کبھی رکتی نہیں
ذرّے ذرّے میں اتر آتے ہیں لاکھوں آفتاب
رات شہرِ مصطفیؐ میں اس لئے ہوتی نہیں
دامنِ عرضِ ہنر میں پھول کھل اٹھّے ہزار
خوشبوئے حرفِ طلب لب سے ابھی نکلی نہیں
کیا کہوں تجھ سے مدینے کے سفر کا ماجرا
آپؐ کے در پر یہ تیری آنکھ ہی بھیگی نہیں
جس کی آنکھوں میں نہیں عشقِ نبیؐ کی آبجو
وہ مرا ہمدم نہیں اور وہ مرا ساتھی نہیں
روشنی کے پھول بچپن ہی سے کھلتے ہیں ریاضؔ
تیرگی میری ہتھیلی پر کبھی اتری نہیں