قریۂ جاں میں بکھیرے روشنی حرفِ ثنا- کائنات محو درود ہے (2017)
قریۂ جاں میں بکھیرے روشنی حرفِ ثنا
ایک شاعر ہے درِ اقدس پہ محوِ التجا
آپؐ کا طرزِ عمل اے ہادیٔ جنّ و بشر
زندگی کے روز و شب کا ہے مکمل ضابطہ
میں کہ لایا ہوں دبستانِ مدینہ سے قلم
میں کہ لکھّوں گا کتابِ آرزو کا حاشیہ
ایک اک خطّے میں ہیں جود و سخا کی بارشیں
ایک اک خطے میں اُنؐ کی نعت کا پرچم کُھلا
ہے جوارِ گنبدِ خضرا میں خوشبو کا قیام
ہے جوارِ گنبدِ خضرا میں نوری رتجگا
خلدِ طیبہ میں جلاتی ہے دیے بادِ نسیم
پھول چنتی ہے درِ سرکارؐ سے بادِ صبا
حرفِ آخر ہے مرے آقاؐ کا فرمانِ جمیل
اُنؐ کے ہے نقشِ کفِ پا سے سخن آراستہ
اہلِ شر کے علم میں اب تک یہ بات آئی نہیں
آپؐ کے کردار و سیرت آئنہ ہیں آئنہ
ارتقائے نسلِ انسانی کا ہے پہلا قدم
وسعتِ افلاک میں وہ نقشِ پا کا سلسلہ
ماورائے علم و دانش کب ہیں افکارِ قدیم
کب رکا ہے راستے میں روشنی کا قافلہ
ہو عطا مجھ کو غلامی کی سند آقا حضورؐ
معتبر ہے سب حوالوں سے حوالہ آپؐ کا
ایک افسردہ سا موسم جان و دل پر ہے محیط
ہو مرے احوال پر چشمِ کرم، یا مصطفیؐ
امتِ سرکش کے حالِ زار پر آقاؐ کرم
توڑ بیٹھی ہے مدینے کی گلی سے رابطہ
چیخ اٹھّے ہیں در و دیوار مقتل کے تمام
’’یانبیؐ‘‘ نکلا زبانِ حال سے بے ساختہ
چشمِ رحمت کے طلب گاروں میں شامل ہے ریاضؔ
سیّدیؐ یا مرشدیؐ، یا مجتبیٰؐ، یا مرتضیٰؐ