مجھے روشنی کی تلاش تھی میں درِ نبیؐ پہ چلا گیا- کائنات محو درود ہے (2017)
مجھے روشنی کی تلاش تھی مَیں درِ نبیؐ پہ چلا گیا
ہوا یوں کہ پھر شبِ حشر تک مری خاک سے نہ اٹھا گیا
وہ ہوائے ارضِ حضورؐ ہے جو چراغِ علم جلا گئی
وہ ہے ذوق و شوقِ ثنا گری مجھے راستہ جو دکھا گیا
جسے مَیں نے رکھا سنبھال کے، زرِ نورِ حرفِ سپاس میں
وہ کتابِ عشقِ حضورؐ کے ہے ورق ورق کو سجا گیا
غزل اُنؐ کے در کی کنیز ہے، دل و جاں سے مجھ کو عزیز ہے
مَیں کہ نغمہ گر ہوں حضورؐ کا، مری لوحِ جاں پہ لکھا گیا
یہ خیالِ شہرِ حضورؐ ہے، یہ جمالِ حرفِ شعور ہے
مری شاخِ جاں پہ، دمِ سحر، گلِ نعتِ نو جو کھلا گیا
مجھے جب طلب کیا آپؐ نے وہ گھڑی تھی میرے عروج کی
مَیں نکل پڑا سرِ شام ہی، مرے شوق سے نہ رکا گیا
اسی سوچ میں ہے نوا مری، اسی فکر میں ہے سخنوری،
یہ ستارے میرے نصیب کے کوئی آسماں سے گرا گیا
وہ درودِ پاک کی محفلیں، وہ درِ حضورؐ کی رونقیں
وہی رتجگوں کا ہے رتجگا جو نگاہ و دل میں سما گیا
وہ قلم ہے عالمِ وجد میں، بڑے عجز سے، بڑے پیار سے
اُسی بارگاہِ عظیم کا، مجھے بھی ادب ہے سکھا گیا
مری سسکیوں کی زباں پہ بس یا درود تھا یا سلام تھا
مَیں نے بڑھ کے جالیاں چوم لیں، مرے ضبط سے نہ رہا گیا
مجھے مال و زر کی ہوس نہیں، مجھے خسروی کی طلب نہیں
درِ مصطفیؐ کا خیال ہی، مجھے شامِ غم سے چھڑا گیا
مرے ہر ورق پہ تھی کہکشاں، مرا لفظ لفظ تھا زرفشاں
جو چراغِ حُبِّ نبیؐ جلا، نہ ہوائے شب سے بجھا گیا
یہ وفورِ لوح و قلم ہی ہے، یہ کمالِ ریگِ عرب ہی ہے
سرِ شام، خاکِ رہ نبیؐ، مری آنکھ میں جو لگا گیا
وہ چراغِ شامِ دعا ہی تھا، وہ گلابِ حرفِ ثنا ہی تھا
جو نبیؐ کا نام خلوص سے، مری تختیوں پہ بنا گیا
مرا ہمسفر مرا راز داں، مرا ہم نفس مرا ہمزباں
مری داستانِ وفا مجھے، شبِ التجا میں سنا گیا
کروں چشمِ تر کا مَیں شکریہ، مری عمر بھر کی ہے ہمسفر
مرا جاگنا شبِ ہجر میں، مرے سوئے بھاگ جگا گیا
وہ ریاضؔ ہے وہ ریاضؔ ہے وہ محبتوں کی بیاض ہے
مری کشتِ جاں میں قدم قدم وہ کرن کرن ہے بچھا گیا