مرے افکار کی چادر دُھلے قدموں کے دھوون سے- کائنات محو درود ہے (2017)
مرے افکار کی چادر دُھلے قدموں کے دھووَن سے
قلم بھیگے ہمیشہ آپؐ کی مدحت کے ساون سے
شبِ میلاد بچّوں نے چراغاں ہے کیا گھر میں
تصوُّر میرے بچپن کو اٹھا لایا ہے آنگن سے
ثنا گوئی کا کب منصب ملا مجھ کو، خدا جانے
درودِ پاک پڑھتا آرہا ہوں اپنے بچپن سے
ارادہ جب بھی کرتا ہوں نبیؐ کی نعت لکھنے کا
لپٹ جاتے ہیں آکر چاند تارے میرے دامن سے
یہ سب سرکارؐ کے نقشِ کفِ پا کا اجالا ہے
کبھی سورج کوئی مانگو مرے اندر کے چانن سے
سماعت کیا سماعت ہے تری اے خوشنوا شاعر
چراغِ نغمہ گر جلنے لگا سینے کی دھڑکن سے
ہوائے خلدِ طیبہ سے مسلسل گفتگو کرنا
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو یہ اپنے لڑکپن سے
حصارِ عافیت میں خوشبوئیں رہنے کی عادی ہیں
سبق سیکھا کرو کچھ تو ریاضؔ اربابِ گلشن سے