وقفِ ثنائے احمدِ مختارؐ ہے قلم- خلد سخن (2009)
وقف ثنائے احمد مختارؐ ہے قلم
خیر البشرؐ کے عشق میں سرشار ہے قلم
ہجرِ نبیؐ میں اشک بہاتا ہے رات دن
طیبہ کی حاضری کا سزاوار ہے قلم
کل ہی نہیں تھی اس کے مقدّر میں روشنی
اوراقِ جاں پہ آج بھی ضوبار ہے قلم
دامن میں آنسوؤں کے سجا کر گہر ہزار
خاکِ درِ نبیؐ کا طلب گار ہے قلم
ہر وقت جیسے موسمِ گل ہمرکاب ہے
لمحاتِ دلکشا کا چمن زار ہے قلم
محشر کے دن بھی دیکھنا میدانِ حشر میں
توصیفِ مصطفیٰؐ کا علمدار ہے قلم
نسبت اسے ہے والیٔ بطحا سے اس لیے
ہر عہدِ شر میں صاحبِ کردار ہے قلم
سورج ہتھیلیوں پہ سجا کر ابھی تلک
ظلماتِ شب سے برسرِ پیکار ہے قلم
اس کے برہنہ سر پہ بھی چادر شعور کی
یہ بھی غلام آپؐ کا سرکارؐ ہے قلم
ہر شب فصیلِ عشق پہ بنتا ہے یہ چراغ
روزِ ازل سے دیدۂ بیدار ہے قلم
توفیقِ نعت جس کا مقدّر نہ بن سکی
اقلیمِ آرزو میں وہ بے کار ہے قلم
دستک درِ حضورؐ پہ دیتا ہے صبح و شام
علم و شعور و فکر کا مینار ہے قلم
زر کی ہے زد میں عصمتِ تحریر یارسولؐ
شہرِ ہوس میں پھر سرِ بازار ہے قلم
کنجی ہے علم و فن کے خزینوں کی اس کے پاس
کب شہرِ دل میں مفلس و نادار ہے قلم
رکھتا ہے ربط روضہء سرکارؐ سے، ریاضؔ
کرب و بلا میں سایہء دیوار ہے قلم