ہر اُفق پر نعت کا چمکے گا خورشیدِ عظیم- خلد سخن (2009)

ہر اُفق پر نعت کا چمکے گا خورشیدِ عظیم
ربط رکھے خاکِ طیبہ سے مرا ذوقِ سلیم

رات بھر اوراقِ چشمِ تر میں مہکیں گے گلاب
دامنِ لوح و قلم کو تھام لے بادِ شمیم

سوچ کے ہر اِک دریچے میں جلے گا حشر تک
ہے چراغِ حرفِ مدحت سے یہ پیمانِ قدیم

یہ کھلا قرآن میں حکمِ خدا پانے کے بعد
نعت گوئی اصل میں ہے سنتِ رب کریم

میں حصارِ عافیت میں اس لیے ہوں آج بھی
ہمسفر ہے روز و شب سرکارؐ کا لطفِ عمیم

حال کیا دہلیزِ پیغمبرؐ پہ تھا عشاّق کا
شاخِ جان و دل پہ لکھّے موجہء بادِ نسیم

نقشِ پائے مصطفیٰؐ کو ڈھونڈتا ہوں اس لیے
آنکھ سے اوجھل نہ ہو پائے صراطِ مستقیم

پرچمِ ابرِ شفاعت لے کے آ جائیں حضورؐ
فردِ عصیاں روزِ محشر ہے گناہوں سے ضخیم

ڈوب جا نطق و بیاں کے آفتابوں میں، ریاضؔ
جو برنگِ نعت ہیں میرے دل و جاں میں مقیم