حضور ﷺ، میری صدی کی ہے کربلا برپا- خلد سخن (2009)
حضورؐ، آپؐ ازل سے خدا کی بستی میں
چراغ بانٹنے کے منصبِ جلیلہ پر
ہیں جلوہ گر کہ نہیں آپؐ کا کوئی ثانی
تمام حسن جو تخلیق کے ہے دامن میں
حضورؐ، آپؐ کے نعلین کا تصدق ہے
حضورؐ، آپؐ خدا کے ہیں آخری مرسلؐ
نصابِ ارض و سما آپؐ کی شریعت ہے
حضورؐ، شہرِ حوادث میں ہر طرف قاتل
تلاش کرتے ہیں اہلِ دعا و مدحت کو
ہیں دستِ جبرِ مسلسل کی ضربتیں کاری
ہے سانس لینے پہ پابندیوں کا دستِ اجل
حضورؐ، کون مقید کرے اندھیروں کو
حضورؐ، عہدِ گزشتہ کی روشنی کا بدن
کسی اُداس جزیرے میں خیمہ زن ہو گا
حضورؐ، آج سرِ شام گھپ اندھیروں میں
لکھا گیا ہے وثیقہ مری تباہی کا
غلط حروفِ جہالت کا جو پلندہ ہے
حضورؐ، ارضِ فلسطین پر ’’خداؤں‘‘ نے
لہو سے لکھی ہے تقدیر میرے بچوں کی
وہ جن کے ہاتھ میں پتھر بھی رونے لگتے ہیں
درندے جن کی کلائی مروڑ دیتے ہیں
حضورؐ میری صدی کی ہے کربلا برپا
یزید وقت کے مصروف سازشوں میں ہیں
فرازِ جنتِ ارضی سے خون کے چشمے
فلک کی آنکھ سے آبِ رواں کی صورت میں
حضورؐ، آج بھی بنجر زمیں پہ جاری ہیں
برہنہ سر ہیں کھڑی بیٹیاں سرِ مقتل
حضورؐ، آپؐ ہی چارہ گری کریں اب تو
حضورؐ، چادرِ زینبؓ عطا نہیں ہوتی
قبول کوئی بھی میری دعا نہیں ہوتی